دہشت گرد لدھیانوی کا دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ سے اظہار برائت
بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ کے کرتا دھرتا مولوی احمد لدھیانوی نے دعوی کیا ہے کہ ہم پاکستان میں امریکہ کے خلاف اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں ہونے والے شیعہ قتل عام اور ٹارگٹ کلنگ میں ہماری جماعت ملوث نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قتل ہونے والا بے گناہ شیعہ ہو یا سنی، اسکا قتل قابل مذمت ہے۔ مولوی احمد لدھیانوی یہ بھی دعوی کیا کہ ہماری جماعت کا دہشت گردی سے نہ تعلق تھا نہ ہے اور نہ رہے گا۔ واضح رہے کہ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے احمد لدھیانوی کا یہ پہلا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کونسل کے ارکان کو اپنی جماعت کی طرف سے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی جماعت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث نہیں ہے۔ احمد لدھیانوی کے اس بیان کو سید منور حسن، مولانا سمیع الحق اور جنرل ریٹائرڈ حمید گل نے اجلاس میں بیحد سراہا۔ یاد رہے کہ شیعہ نسل کشی کے حالیہ واقعات کے بعد الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر ان واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے جس کے بعد بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ پاکستان میں سابق فوجی حکومت خصوصا جنرل محمد ضیاالحق کی ذاتی کوششوں اور براہ راست نگرانی میں پروان چڑھنے والے کچھ مخصوص طرز فکر کے حامل گروہوں کو کبھی بھی پاکستانی عوام میں پذیرائی نہیں ملی اور شیعہ عوام کے ساتھ ساتھ سنی مسلک کے مسلمانوں نے ان گروہوں کو ہمیشہ دھتکارا اور خود کو ان سے دور رکھا، یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں شیعہ مسلک کے پیرؤں کے قتل عام کے باوجود شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان ٹکراؤ اور خانہ جنگی کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی کہ جس کا سپاہ صحابہ اور اس کے سرپرستوں کو ہمیشہ قلق رہا۔ شیعہ عمائدین اور رہنماؤں کی فہم و فراست، صبر و تحمل اور دوسری جانب انصاف پسند اور اسلام کا درد رکھنے والی اہلسنت قیادت نے دونوں مسلکوں کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ کی ہر کوشش اور سازش کو ناکام بنائے رکھا اور اس بات کو واضح کردیا کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کا سواد اعظم اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ سامراجی اشاروں پر کام کرنے والوں یہ ایک مخصوص ٹولہ ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہا ہے۔ مبصرین کے بقول کراچی، کوئٹہ، گلگت بلتستان اور پاراچنار سمیت ملک کے دیگر مقامات پر ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث افراد سے مولوی احمد لدھیانوی کے اظہار برائت کے بعد پاکستانی حکام اور عدلیہ کے پاس ایک مناسب موقع ہے کہ وہ بغیر کسی خوف کے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس قدم اٹھائیں اور اس بات کا موقع نہ دیں کہ اس دہشت گرد ٹولے کے ہاتھوں مزید بے گناہ افراد نہ مارے جائیں۔ اس درمیان علما کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے کہ وہ مذھبی روادری کو فروغ دیں اور اپنے اتحاد سے فرقہ واریت کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے والی قوتوں کی کمر توڑ کر رکھ دیں۔ چنانچہ گلگت بلتستان میں مرکزی خطیب جامع مسجد اہلسنت و الجماعت مولانا قاضی نثار احمد اور مرکزی خطیب جامع مسجد امامیہ اہل تشیع آغا راحت حسین الحسینی نے مشترکہ طور پر گلگت بلتستان کے اندر اور باہر جتنے بھی اجتماعی و انفرادی دہشتگردی کے سانحات اور واقعات رونما ہوئے ہیں ان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسالک اہلسنت و اہل تشیع اسلامی فرقے ہیں اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اسلامی فریضہ ہے۔ لہٰذا مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قتل کرنا غیر اسلامی اور غیر شرعی فعل ہے۔ اس بات کا اعلان دونوں خطباء نے پارلیمانی امن کمیٹی اور مساجد بورڈ کے زیراہتمام چنار باغ کے سبزہ زار میں ان کے اعزاز میں دی گئی ایک پروقار اور روح پرور تقریب میں کیا۔ تقریب میں وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر علامہ سید راحت حسین الحسینی نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں توفیق دی ہے کہ ہم ملت کی بگڑی ہوئی حالت کو سنوارنے کیلئے اکھٹے ہوئے ہیں، تاکہ علاقے میں امن قائم ہوسکے اور ہر کوئی آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض سرانجام دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس پہلے بھی ہوتے رہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم مخلص ہو کر دو چیزوں پر عمل کریں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔ تقویٰ اختیار کریں اور دوسرا عدل قائم کریں۔ یہ قانون صرف علماء کیلئے نہیں ہے بلکہ سب کیلئے ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی خطیب جامع مسجد اہلسنت و الجماعت مولانا قاضی نثار احمد نے کہا کہ تلخ حالات کے بعد یہ موقع اللہ تعالٰی نے دیا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر امن قائم کرسکیں۔ اس عظیم دین کو اللہ تعالٰی نے اپنے نبیوں کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔ ہمیں گلگت بلتستان کا امن عزیز ہے۔ مرکزی خطیب جامع مسجد اہلسنت و الجماعت نے کہا کہ میں علامہ راحت حسینی صاحب کی تائید کرتا ہوں کہ شیعہ شیعہ رہے اور سنی سنی ہی رہے، یہاں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں، اپنے عقیدے کو چھوڑیں نہیں اور دوسروں کے عقیدے کو چھیڑیں نہیں تو امن قائم ہوسکتا ہے۔ تمام مسالک شیعہ سنی اور اسماعیلی و نور بخشی آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اسلامی فرقے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی قدر کرنی چاہیے، لہٰذا ان کا قتل غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ گلگت بلتستان میں دہشتگردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں، میں ان
تمام کی مذمت کرتا ہوں، بحیثیت قوم ہمیں مل کر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور امن کیلئے یکجا ہو کر بحیثیت قوم آگے بڑھنا ہوگا۔