ناہل حکمران انسانی حقوق کی پامالی کا سبب ہیں، محضر زہرا کے حوالے سے خاموشی کیوں؟
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں عوام کو آئینی حقوق اوربنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، اگر حکمران اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راستہ روک کر ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے، آج صرف پاکستان ہی پوری دنیا میں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے، انسانی حقوق کی پامالی کے سبب پیدا ہونے والا معاشرتی بگاڑ عروج پرہے ،اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اسلام کے عطا کردہ ضابطہ اخلاق پر عمل کیا جائے ، انہوں نے ان خیالات کا اظہار انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر مجلس وحدت کے مرکزی سیکرٹریٹ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کیا ، علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے ، تینتیس فیصد بچوں کو حصول تعلیم اور چالیس فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر نہیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے سبب سرزمین وطن پر غربت مہنگائی ، اقربا پروری اور دیگر معاشرتی برائیوں نے عوام کو احسااس محرومی میں مبتلا کر رکھا ہے ، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی
اور لاقانونیت ہے ، کراچی ، کوئٹہ ، ڈی آئی خان اور گلگت بلتستان سمیت ملک کا کوئی بھی علاقہ دہشت گردوں کی خونی وارداتوں سے محفوظ ،نہیں ، معصوم بچوں اور خواتین کو بے رحمی سے قتل کیا جا رہاہے ، سوات میں ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا ، کراچی میں کنیز فاطمہ اور اس کے خاوند کو قتل کیا گیا اور ساتویں جماعت کی طالبہ محضر زہرا کی آنکھوں کے سامنے اس کے والد کو شہید کر کے خود اس کو بھی زخمی کیا گیا جو گزشتہ دو ہفتوں سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے ، ستم ظریفی یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے دہشگردانہ حملہ پر تو دنیا بھر میں شور مچ کیا اور دہشت گردی کی اس واردات کے خلاف اس انداز میں صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ ملالہ کیس اہم بین الاقوامی ایشو بن گیا ، لیکن کراچی میں کنیز فاطمہ اور محضر زہرا کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی پر حکومت ، حکومتی اداروں ، انسانی حقوق کے علمبرداروں کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ، آج پوری دنیا میں عالمی یوم انسانی حقوق منایا جارہا ہے ، میں اس موقع پر سوال کرتا ہوں کہ کیا محضر زہرا قوم کی بیٹی نہیں ، اس پر ہونے والے دہشگردوں کے حملہ پر انسانی حقوق کے علمبردارو کی زبانیں خاموش کیوں ہیں ؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے ظلم سے لیکر ڈرون حملوں میں بے گناہ بچوں عورتوں کے قتل پر دنیا خاموش کیوں ہے؟
علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ جب تک معاشرے میں طبقاتی تقسیم اور منافقت کو ختم نہیں کیا جاتا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا راستہ نہیں روکا جا سکتا، اس لیے پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ، انہوں نے کہا اس صورت حال کی تمام تر ذمہ داری سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام پر عائد ہوتی ہے ، تاریخ شاہد ہے کہ سرمایہ داروں نے ہمیشہ کمزور طبقے کر کرش کرنے کہ کوشش کی، آج بیداری کا دور ہے ، امریکہ سمیت پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام میں عوامی بیداری کی تحریکیں چل رہی ہیں ،جو یقیناً انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت بنیں گی ، سرمایہ دارانہ نظام ان تحریکوں سے خوفزدہ اور انہیں کچلنے کے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تحریکوں کو تقویت دی جائے ، سربراہ مجلس وحدت مسلمین نے انسانی حقوق کے عالی ادارہ یو این او کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ قرار دیا ، انہوں نے کہا کہ یو این او کا انسانی حقوق کا معیار ہی الگ ہے ، اگر یورپی ممالک میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں جائیں توشورمچ جاتا ہے اور عالمی امن فورسز حرکت میں آ جاتی ہیں لیکن اسے کشمیر،فلسطین،برما،شام، بحرین اور دیگر مسلم ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں ۔ اسرائیل کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو تو اسے اس ملک کی دفاعی ضرورت قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اگر اسلامی ممالک اپنے پر امن ایٹمی پروگرام پر عمل کرے کرے تو اسے تجارتی اور معاشی و اقتصادی پاپندیوں کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے، علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے محب وطن اور پرامن شہری ہیں ، پاکستان سمیت کسی بھی معاشرے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش نہیں رہ سکتے، ہمارا لمیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس اپنے ملک کی کوئی پالیسی نہیں ، پورا ملک امپورٹڈ پالیسیوں کے تحت چلایا جا رہا ہے ، ا س صورتحا ل میں حکمرانوں سے انسانی حقوق کی بحالی اور تحفظ کی توقع رکھنا بے سود ہے، ان حالات میں نظام کو تبدیل کرنا بے حد ضروری ہے ، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نظام کی تبدیلی کا خواب صرف اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب پوری قوم بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے عام انتخاب کے دوران محب وطن ، مخلص ، باکردار اور بصیرت رکھنے والے افراد کو قومی اور صوبائی ایوانوں میں پہنچائے ، اگر پاکستان ی قوم اس میں کامیاب ہوگئی تو یقیناًنہ صرف سرزمین وطن پر تبدیلی رونما ہو گی بلکہ پاکستانی ایوانوں سے ، آزادی کشمیر، آزادی فلسطی
ن، اور بحرین و برما میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھی موثر آواز بلند ہو سکے گی ۔