ہر مولوی نما کے پیچھے جانے کے بجائےاس کے ماضی پر ضرور نظر رکھیں
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) علامہ عابد الحسینی کا انٹرویو پیش خدمت ہے
سوال: عراق، لبنان اور اسکے بعد ایران میں ہونے والے مظاہروں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہاں عوام کا اپنی حکومتوں یا نظام پر اعتماد ختم نہیں ہوچکا ہے؟
علامہ سید عابد حسینی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ دیکھیں پوری دنیا میں ظلم و ستم کے بازار گرم ہیں، مہنگائی تو ایک معمولی سی چیز ہے، دنیا میں ایسے ممالک ہیں، جہاں امن و امان کا شدید مسئلہ ہے۔ اور کسی ملک کے استحکام کے لئے سب سے اہم چیز ہی امن ہے۔ چنانچہ ان کو چھوڑ کر تین ایسے ممالک کا انتخاب کیا گیا۔ جہاں آج کل سب کچھچ ٹھیک حالت میں ہیں۔ ہاں اس سے پہلے یہاں امن تھا، نہ ترقی اور نہ آزادی۔ بلکہ یہاں دوسروں کی غلامی نافذ تھی۔ جبکہ آج کل یہ ممالک اغیار کی غلامی سے آزاد ہیں، آزاد معیشت کے حامل اور خوشحال ممالک کے صف میں شامل ہیں۔ یہ اپنی جگہ پر ایک سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سوال : علامہ صاحب! بات کاٹنے پر معذرت، آپ نے فرمایا کہ کچھ ممالک کا انتخاب کیا گیا، تو عوام نے ملکر کیسے یہ انتخاب کیا۔ عوام تو ایک طوفان کی حیثیت رکھتے ہیں، جب بپھر جاتے ہیں، تو سوچتے نہیں، ایک ریلے کی طرح اپنے ساتھ خشک وتر سب کچھ لے ڈوبتے ہیں؟
علامہ سید عابد حسینی: یہی تو بات ہے نا۔ یہ عوام سعودی عرب، عرب امارات، سوڈان، مصر، بحرین، اپنے ملک پاکستان اور افغانستان میں کیوں ایسی صورت اختیار نہیں کررہے۔ کیونکہ یہ پروگرام عوام کا نہیں تھا۔ بلکہ باہر کا درآمد شدہ تھا۔ ان تین ممالک کی پالیسیوں اور اندرونی حالات پر غور کریں۔ نتیجہ سمجھ میں آجائے گا۔ یہاں یعنی ان تینوں ممالک میں امریکہ اور یورپ خصوصا اسرائیل کے لئے زبردست نفرت موجود ہے۔ ان ممالک سے اسرائیل کو خطرہ ہے۔ جبکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود اور عدم وجود مغرب کیلئے ایک اہم مسئلہ ہے۔ وہ کسی ایسے ملک کو نہیں دیکھ سکتے، جن سے اسرائیل خطرہ یا خوف محسوس کرے، خواہ وہ خواب میں ہی کیوں نہ ہو۔
سوال : ایران کی حد تک تو بات ٹھیک ہے، اسے تو اسرائیل کیا، امریکہ بھی اپنے وجود کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ مگر عراق اور لبنان سے اسرائیل کیا خطرہ محسوس کرے گا؟
علامہ سید عابد حسینی: دیکھیں! ایران کا فاصلہ اسرائیل سے کافی دور ہے۔ وہ ایران کو خطرے کا اصل سبب تو تصور کرتے ہیں۔ تاہم شام، لبنان اور فلسطین وہ اپنے لئے نہایت خطرناک تصور کرتا ہے۔ کیونکہ انکی سرحدیں انکے قریب بلکہ متصل ہیں۔ اسی طرح عراق بھی اسکے قریب ہے۔ اور اسکے توسط سے نہایت آسانی کے ساتھ ایران سے شام، لبنان اور فلسطین کو بروقت کمک پہنچ سکتی ہے۔ چنانچہ انکے لئے یہ چاروں ممالک نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان ممالک پر انکی چوبیس گھنٹے نظر رہتی ہے۔
سوال : باہر سے اشارہ ہوا، کمک پہنچی، یا کیسے عوام سمجھ بیٹھے، جو انہوں نے مظاہرے شروع کئے؟
علامہ سید عابد حسینی: عرض یہ ہے کہ، کچھ افراد کی باہر سے کمک کی گئی۔ اور کافی کو ایجنٹوں کے ذریعے جھانسہ دیکر آمادہ کیا گیا۔ جبکہ مظاہروں اور خود مظاہرین کی حالت کچھ یوں ہوتی ہے۔ کہ جب وہ مظاہرے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ تو 95 فیصد کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔ لیڈران جس طرف کا رخ کرتے ہیں، عوام کا ریلا اسی طرف مڑ جاتا ہے، میرایک دوست ذکر کررہا تھا۔ کہ احتجاج کے دوران آپ خود ہی تجربہ کریں۔ ایک نہایت بے معنی نعرہ لگائیں۔ عوام اسے فورا دہرائیں گے۔ آپ جائیں، مارکیٹ میں کسی دوکان کی چادر کو ڈنڈے سے ماریں، بلا روک ٹوک اور بغیر سوچے سمجھے مظاہرین دوکان کا ستیاناس کر بیٹھیں گے۔ تو مظاہرین کی اکثریت اصل مقصد سے بے خبر ہوتی ہے۔ چنانچہ ان ممالک میں ایک نہیں، امریکہ اور اسرائیل کے ہزاروں کارندے پہلے ہی سے موجود ہیں۔ انہیں ٹاسک دیا جاتا ہے۔ اور جب ایک دفعہ مظاہرے شروع ہوجاتے ہیں۔ تو ان لوگوں کو ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ باقی کچھ ایسے لوگ لیڈر بن جاتے ہیں۔ جنہیں خود ذاتی طور پر کچھ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ وہ پھر اپنے ذاتی مسائل کو حل کرانے کیلئے اس اجتماع کو استعمال کرتے ہیں۔ عوام تو سوچتے نہیں، وہ کسی بھی چیز کو آگ لگانے سے دریغ نہیں کرتے۔ جیسے دیکھ لیا عراق بلکہ کربلا جیسے مقدس شہر میں انہوں نے اپنے محسن عظیم یعنی ایران کی سفارت کو نقصان پہنچایا۔
سوال : معذرت، ایران نے عراق پر کونسا احسان کیا ہے، انکی تو عراق سے دشمنی رہی ہے۔ آٹھ سال تک جنگ رہی ہے۔
علامہ سید عابد حسینی: ہاں جنگ رہی ہے۔ وہ بھی امریکہ کے اشارے پر صدام لعین نے شروع کی تھی۔ جس میں دونوں ممالک کا بے حد نقصان ہوا۔ جبکہ ایران کا موجودہ حالت میں عراق پر احسان یہ ہے کہ چار پانچ سال پہلے جب داعش نے عراق کے شہر موصل پر قبضہ کیا اور پھر بغداد، کربلا ونجف کو اپنے نشانے پر لیا، تو عراقیوں کے حوصلے مکمل طور پر بیٹھ چکے تھے۔ بغداد سے لوگوں نے ہجرت شروع کی۔ مگر ایران نے کمک شروع کی۔ اور قاسم سلیمانی کی قیادت اور ایران کی تجویز پر بننے والی لوکل ملٹری قبائلی تنظیم حشد الشعبی ہی کی برکت سے عراق میں داعش شکست سے دوچار ہوئی۔ موصل سے ایک قدم آگے بڑھنا تو کیا۔ ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں موصل بلکہ پورا عراق داعش کیلئے شجرہ ممنوعہ بن گیا۔ حالانکہ امریکہ کی نام نہاد فورسز بھی داعش کو ختم کرنے کی فرضی مہم چلانے کی دعویدار تھی۔ تاہم انہوں نے خود یہ اعتراف کیا تھا۔ کہ عراق سے داعش کا خاتمہ دس سالوں میں ممکن ہوگا۔ جبکہ ایران کی کمک سے صرف ڈیڑھ سال میں داعش کا خاتمہ ہوگیا۔ چنانچہ ایران کے احسانات کا طوق عمر بھر عراقیوں کے گردنوں میں رہے گا۔
سوال : ایران کی سفارت کو نقصان پہنچانے والوں کا تعلق عام افراد سے تو نہیں تھا نا، وہ تو مولوی یا علماء لوگ تھے۔ تو علماء کرام نے ایران کی مخالفت کیوں کی؟
علامہ سید عابد حسینی: دیکھیں شیعوں میں جو سب سے اہم نظام رائج ہے، وہ اجتہاد کا نظام ہے۔ جبکہ اہل سنت میں ہر شخص مفتی بن سکتا ہے۔ کوئی بھی مولوی سات سال مدرسہ میں پڑھ کر مفتی بن سکتا ہے۔ اور پھر وہ جسکے خلاف چاہے فتوی صادر کرسکتا ہے۔ یہی تو وجہ تھی کہ طالبان کی شکل میں ہر مولوی فتویٰ دیتا تھا۔ جبکہ شیعوں میں صرف چند ہی افراد فتوی دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ جنہیں مجتہد کہا جاتا ہے۔ جو تقریبا تیس چالیس سال تک تحصیل علم اور اس کے بعد بیس پچیس سال تحقیق میں صرف کرتے ہیں۔ ایسے افراد کا تعین پھر عوام نہیں کرسکتے، بلکہ خود مجتہدین کی ایک شوریٰ اسکا تعین کرتے ہیں۔ کہ آج کل فلاں فلاں اجتہاد کے مسند کے لائق ہیں۔ جبکہ محمود نام کے اس مولوی کے علم و تحقیق کا کسی کو بھی پتہ نہیں، سوائے اسکے، کہ اس نے کراچی میں چند سال جادو ٹونے کی مہارت حاصل کی تھی۔ اسکی مذمت بہت پہلے عراق میں مجتہدین عظام نے کی تھی۔ انہوں نے اوٹ پٹانگ قسم کے متعدد دعوے اس سے قبل کئی مرتبہ کئے تھے۔ چنانچہ اسکی یہ حرکت میرے خیال میں نقصان دہ نہیں، عوام خصوصا شیعوں کیلئے ایک مفید تجربہ ثابت ہوئی۔ اب اسکے بعد عوام ہر مولوی نما کے پیچھے نہیں بھاگے گی۔ بلکہ اسکی ماضی پر نظر رکھے گی۔ جبکہ میری عوام سے یہ گزارش ہے کہ وہ ہر مولوی نما کے پیچھے جانے سے پرہیز کریں۔ بلکہ انکے علمی استعداد اور انکی ماضی پر ضرور نظر رکھیں، کہ ماضی میں یہ کیا کرتا تھا۔