
گلگت بلتستان میں غیر شیعہ آبادی کا اضافہ؛ وضاحت، اہمیت، خطرات اور سدباب
اگر اس مسئلے کو بروقت حل نہ کیا گیا تو اس سے علاقے کی مذہبی، ثقافتی اور سیاسی شناخت پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے، جس کا نتیجہ ممکنہ طور پر علاقے کے امن و امان کی خرابی کی صورت میں نکل سکتا ہے
شیعہ نیوز: گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع ایک خوبصورت خطہ ہے، جس کی بیش بہا جغرافیائی اور ثقافتی اہمیت ہے، یہ علاقہ تاریخی طور پر شیعہ مسلمان اکثریت پر مشتمل ہے، جن کی مذہبی، ثقافتی اور تاریخی شناخت اس علاقے میں جڑ پکڑ چکی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس علاقے میں غیر شیعہ آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جس کا اثر نہ صرف علاقے کی داخلی سیاست پر پڑ رہا ہے، بلکہ اس سے علاقے کے امن و امان پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں؛ اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے کا چین کے بارڈر سے جڑا ہوا ہونا بھی اس خطرے کو اہم بنانے کے لئے کافی ہے۔
مسئلے کی وضاحت
گلگت بلتستان میں غیر شیعہ آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس پر کافی عرصے سے متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مقامی حکومت کی پالیسیوں، ملکی حکومتوں کی غفلت اور غیر قانونی ہجرت کی وجہ سے یہاں کی شیعہ اکثریتی آبادی میں کمی اور غیر شیعہ آبادی میں غیر طبیعی اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر شیعہ افراد کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ اس کا اثر نہ صرف مقامی معاشرتی ڈھانچے پر پڑ رہا ہے بلکہ یہاں کی ثقافت، امن و امان اور مذہبی شناخت پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امام مہدی (ع) کی ذاتِ اقدس ہی عالمی مستضعفین کے لیے امید کا مرکز و محور ہے
اس بات کے مختلف پہلو ہیں جو اس مسئلے کی جڑوں تک پہنچنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ کچھ پہلووں کو ہم نے یہاں مختصرا ذکر کیا ہے:
1. سیاسی سازش
گلگت بلتستان میں غیر شیعہ آبادی کو بڑھانے کے لئے مختلف سیاسی قوتیں مداخلت کر رہی ہے، جن کے مقاصد اپنے مفادات کے تحت علاقے میں طاقت کے توازن کو بدلنا ہے۔
2. معاشی حالات
یہاں کے غیر شیعہ افراد اکثر مختلف تجارتی مواقع اور اقتصادی فوائد کی بنا پر گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں، جس سے مقامی شیعہ مختلف مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔ یاد رہے بذات خود غیر شیعہ افراد مسئلے کا باعث نہیں بلکہ خود انکی مذہبی شدت پسندانہ وابستگیاں یا ان کے عقائد و فکر میں موجود کمزوریوں کی بنیاد پر انہیں آسانی سے ورغلایا جانا ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔
3. غیر قانونی ہجرت
گلگت بلتستان میں غیر قانونی طور پر ہجرت کرنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے، جن میں اکثر وہ افراد شامل ہیں جو اپنی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اس علاقے میں آباد ہو رہے ہیں۔
4 تکفیری ذہنیت
ہمیشہ سے اس خطے کی محب وطنی، دینداری، حق پرستی اور خلوص تکفیری قوتوں کو کھٹکتا رہا ہے اور وہ یہاں کے شیعہ طبقے کو اپنے لئے خطرے کے طور دیکھتے ہیں۔ لہذا وہ نہیں چاہتے کہ یہاں شیعہ دیندار طبقہ حاکم ہو جس کے لئے انہوں نے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے۔ اب چاہے وہ الیکشن میں دھاندلی کی صورت میں ہو یا اسلامی بیداری کو نہ پھیلنے دینے کی صورت میں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور ترکیہ کے درمیان 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
اہمیت
یہ مسئلہ اس لئے اہم ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کی مذہبی، ثقافتی اور سیاسی شناخت شیعہ اکثریتی کمیونٹی پر مبنی ہے۔ اگر غیر شیعہ آبادی کا تناسب اس حد تک بڑھ جائے کہ شیعہ افراد کو اقلیتی گروہ کی شکل میں بدل دیا جائے تو اس سے علاقے کا مذہبی اور ثقافتی توازن بگڑ سکتا ہے جس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو جائے گی۔ مزید برآں، اس کے ملکی سیاست پر بھی سنگین اثرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے گلگت بلتستان کے شہری نہ صرف خود ملک کے مختلف حصوں میں آباد ہیں بلکہ ملک بھر کی عوام ان سے قلبی لگاؤ رکھتی ہے۔
خطرات
1. مذہبی اور ثقافتی تصادم
اگر غیر شیعہ آبادی کے ساتھ مذہبی اختلافات بڑھتے ہیں تو گلگت بلتستان میں مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ یہ تصادم علاقے کے امن و امان کو بھی یقیناً متاثر کرے گا اور فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دے سکتا ہے۔
2. سیاسی تنازعات
غیر شیعہ آبادی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے مقامی سیاست میں توازن خراب ہو سکتا ہے۔ سیاسی قوتوں کے درمیان اس بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کی کوششیں، علاقے میں سیاسی تنازعات اور لڑائیوں کا سبب بن سکتی ہیں۔
3. معاشی مسائل
غیر شیعہ آبادی کی بڑھتی ہوئی غیر طبیعی تعداد مقامی معاشی وسائل پر اضافی دباؤ ڈال سکتی ہے، جس سے مقامی شیعہ کمیونٹی کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر قانونی ہجرت کے نتیجے میں علاقے کے وسائل کا غیر متوازن استعمال بھی بڑھ سکتا ہے۔
4. خود مختاری کو لاحق خطرات
اگر گلگت بلتستان میں غیر شیعہ آبادی کا تناسب بڑھتا رہا تو مقامی عوام کے لئے اپنے ثقافتی، مذہبی اور سیاسی حقوق کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا، اس سے علاقے کی خود مختاری اور مقامی کمیونٹی کی شناخت متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیہون سڑک حادثے میں شہداء کے لواحقین سے علامہ ناصر عباس جعفری کی تعزیت
سدباب کے لئے تجاویز
1. قانونی اور انتظامی اقدامات
حکومت کو گلگت بلتستان میں غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لئے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے مشوروں سے، سخت قوانین اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ مقامی آبادی کی ثقافتی شناخت اور مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
2. تعلیمی اور ثقافتی پروگرام
مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لئے تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں کو مخلصانہ فروغ دینا ضروری ہے۔ ان پروگراموں کا مقصد تمام اقلیتی گروہوں کو علاقے کی مذہبی اور ثقافتی شناخت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر رواداری میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
3. مقامی حکومتوں کا مضبوط کردار
مقامی حکومتی اداروں کو اپنے علاقے کی سماجی، مذہبی اور سیاسی حالت کے بارے میں زیادہ آگاہ اور ذمہ دار بنانا چاہیے تاکہ ممکنہ فرقہ وارانہ خطرات کو روکا جا سکے۔
4. بین الاقوامی تعاون اور نگرانی
ضرورت پڑنے پر، غیر قانونی ہجرت اور سیاسی مداخلت کو روکنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر بھی نگرانی اور تعاون کی محدود اور محتاط ضرورت ہو سکتی ہے۔
5. مذہبی قیادت کا کردار
علاقے کے مذہبی رہنماؤں کو اپنے پیروکاروں کو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے تاکہ فرقہ وارانہ تصادم کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: علامہ راجہ ناصرعباس کی محمود خان اچکزئی کے اپوزیشن قائدین کےاعزازمیں عشائیہ میں خصوصی شرکت
خلاصہ
گلگت بلتستان میں شیعہ اکثریتی آبادی کے تناسب میں غیر شیعہ افراد کی بڑھتی ہوئی غیر طبیعی تعداد ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اس مسئلے کے سدباب کے لئے پہلے اسے اچھی طرح سمجھنا چاہئے، پھر ملکی و مقامی حکومت، مقامی رہنماؤں، اور تمام فرقوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس مسئلے کو بروقت حل نہ کیا گیا تو اس سے علاقے کی مذہبی، ثقافتی اور سیاسی شناخت پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے، جس کا نتیجہ ممکنہ طور پر علاقے کے امن و امان کی خرابی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ واضح ہے کہ اس اہم علاقے کے حوالے سے مزید غفلت کے اثرات نہ صرف ملکی سطح پر دیکھے جائیں گے بلکہ پاکستان کے حوالے سے عالمی تشویش میں بھی اضافہ ہوگا۔
تحریر: مرتضٰی ولایتی [پی ایچ ڈی اسکالر، علوم سیاسی]