عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافے کے ممکنہ نتائج
شیعہ نیوز:اربیل میں امریکی فوجی اڈے پر راکٹ حملوں کے بعد مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے عراق میں اپنی فورسز کی تعداد بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس وقت عراق میں نیٹو کے پانچ سو فوجی موجود ہیں، جنہیں بڑھا کر چار ہزار کر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نیٹو کے اس اعلان پر عراق کے مختلف حلقوں کی جانب سے کئی قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ بعض سرکاری عہدیداران جیسے قومی سلامتی کے مشیر نے عراق میں موجود نیٹو فورسز کی تعیناتی کا واحد مقصد عراق سکیورٹی فورسز کو ٹریننگ فراہم کرنا بیان کیا ہے۔ دوسری طرف عراق کے بعض اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی رہنماوں نے ملک میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اسے عراق کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافہ عراق اور خطے پر مختلف قسم کے اثرات ڈالے گا۔
تحریر حاضر میں ہم نے بعض ممکنہ نتائج پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے:
1)۔ مغربی فوجی اتحاد نیٹو کی کسی ملک میں محض موجودگی یا فوجی موجودگی میں اضافہ اس ملک اور اس کے ہمسایہ ممالک پر مختلف قسم کے سکیورٹی اور فوجی اثرات ڈال سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب وہ ملک یا اس کے ہمسایہ ممالک نیٹو کی پالیسیوں سے اختلاف نظر رکھتے ہوں۔ مثال کے طور پر روس جیسا ملک جو خود عالمی طاقتوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے، ہمیشہ اپنی سرحدوں کے قریب نیٹو کے پھیلاو کو اپنے لئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیتا آیا ہے۔
اس تناظر میں عراق سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کی بجائے اس ملک میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافہ اگر زیادہ شدید خطرہ تصور نہ بھی کیا جائے تو کم از کم اسی حد تک عراق کی قومی سلامتی کو درپیش خطرہ ضرور ہے۔ وہ حلقے جو نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافے کا مقصد محض عراقی سکیورٹی فورسز کی ٹریننگ قرار دے رہے ہیں، ایک اسٹریٹجک غلطی کا شکار ہو رہے ہیں۔ عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافہ اس ملک اور اس کے ہمسایہ ممالک کی سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔ اس حقیقت کی تصدیق کیلئے یہی کافی ہے کہ عراقی حکمران دیگر ممالک میں نیٹو فورسز کی موجودگی کے نتائج پر غور کریں۔
2)۔ ایک طرف امریکہ کی جانب سے عراق سے فوجی انخلاء کا اعلان اور دوسری طرف نیٹو کی جانب سے عراق میں اپنی فوجیں بڑھانے کا اعلان درحقیقت ایسا حربہ ہے، جس کے ذریعے امریکہ ایک تیر سے دو نشانے لگانا چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ عراقی پارلیمنٹ میں امریکی فوجی انخلاء کے مطالبے پر مبنی بل کی منظوری سے پیدا ہونے والا دباو ختم کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف نیٹو کی آڑ میں اپنے فوجی عراق میں برقرار رکھنے کے درپے ہے۔ عراقی حکمرانوں کی جانب سے پارلیمنٹ کے منظور شدہ بل پر عملدرآمد کرنے کی تاکید سے امریکی حکومت پر واضح ہوچکا ہے کہ وہ مزید عراق میں فوجی موجودگی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لہذا اس حربے سے امریکہ دونوں مقاصد حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔
3)۔ ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے اسلامی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے ہمیشہ عالمی اداروں اور ملٹی نیشنل تنظیموں کی آڑ لی ہے۔ اب اگر عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یقیناً اس ملک کو ایک اور نیا خطرہ بھی درپیش ہوگا، جو نیٹو فورسز کے روپ میں اسرائیلی ایجنٹوں کی فعالیت پر مشتمل ہے۔ ماضی میں اسرائیلی ایجنٹ مختلف قسم کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر عالمی اداروں کے رکن کے طور پر کئی اسلامی ممالک میں سکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی سرگرمیاں انجام دے چکے ہیں۔ لہذا عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافے کا ایک نتیجہ اس ملک میں اسرائیلی انٹیلی جنس افسران کی موجودگی کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ حالیہ چند سالوں میں ایران سے اسرائیل کی خصومت میں شدید اضافے کے پیش نظر یہ خطرہ سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔
4)۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بارہا اعلان کرچکی ہے کہ وہ عراق میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اسرائیل نے عراق میں ہر ایسے گروہ کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائی ہے، جو اسرائیل مخالف تصور کیا جاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مزاحمتی گروہ کھل کر اسرائیل کی مخالفت کا اظہار کرتے ہیں اور اسرائیل انہیں اپنا دشمن قرار دیتا ہے۔ لہذا اسرائیل اسلامی مزاحمتی گروہوں سے موثر انداز میں مقابلہ کرنے کیلئے عراق میں اپنی موجودگی اور اثر و رسوخ بڑھانے کا خواہاں ہے اور وہ یہ کام نیٹو کی چھتری تلے انجام دینے کا قصد رکھتا ہے۔ یوں عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافہ ایران اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کیلئے مختلف قسم کے چیلنجز پیدا ہونے کا باعث بنے گا۔
تحریر: حسین افراختہ