مضامین

نیتن یاہو بن سلمان ملاقات کے چند اہم مقاصد

حال ہی میں اسرائیل سمیت دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ نے سعودی عرب کے شہر نیئوم میں غاصب صہیونی رژیم کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات کی خبر شائع کی ہے۔ اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو بھی حاضر تھے۔ اگرچہ سعودی وزیر خارجہ نے اس ملاقات کی تکذیب کی تھی لیکن مختلف ذرائع سے اس ملاقات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مذکورہ بالا ملاقات کی تصدیق کرنے والوں میں اسرائیل کے موجودہ وزیر جنگ بھی شامل ہیں۔ اس ملاقات کے فوراً بعد ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں شہید کر دیا جاتا ہے۔ ایران کے سکیورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دہشت گردانہ واقعے میں اسرائیلی حکمران ملوث ہیں۔

موجودہ حالات میں جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدت صدارت کے آخری ہفتے گزار رہے ہیں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کی سربراہی کا دعوی کرنے والے ملک سعودی عرب کے ولیعہد اور اسلامی دنیا کے پہلے نمبر کی دشمن صہیونی رژیم کے وزیراعظم کے درمیان انجام پانے والی ملاقات کے کیا اسباب اور مقاصد ہیں۔ تحریر حاضر میں ہم نے چند اہم مقاصد پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے:
1)۔ صہیونی حکمرانوں سے ملاقات کی قباحت ختم کرنا
جب سے شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں ولیعہد کا عہدہ سنبھالا ہے انہوں نے اندرونی اور علاقائی سطح پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی قباحت ختم کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اسی طرح وہ ایسے پہلے سعودی عہدیدار ہیں جنہوں نے اعلانیہ طور پر ایران کو اپنا دشمن قرار دیا ہے۔

سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے ایران دشمنی پر مبنی بیانات اور موقف سعودی عرب کی گذشتہ تاریخ میں بے سابقہ ہیں۔ سعودی ولیعہد نے ملک کے اندر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا خوبصورت چہرہ پیش کرنے کیلئے "ثقافتی تبدیلی” کا نعرہ لگایا ہے۔ انہوں نے سعودی معاشرے میں مغربی اور غیر اسلامی طور طریقے متعارف کروائے ہیں جن میں ناچ گانے کی محفلیں، بے پردگی اور غیر اسلامی فلمیں شامل ہیں۔ یاد رہے سعودی عرب کے مذہبی معاشرے میں یہ تمام امور دینی اور قومی اقدار کے منافی سمجھے جاتے ہیں۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں کئی بار غاصب صہیونی رژیم کے اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں سے ان کی ملاقات کی خبریں شائع ہوئیں اور ان کی تکذیب بھی منظرعام پر آتی رہی۔

2)۔ سینچری ڈیل معاہدے کو زندہ رکھنا
2017ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض کا دورہ کیا اور مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے "سینچری ڈیل” نامی منصوبہ پیش کیا۔ یہ منصوبہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہے اور اس میں فلسطینی عوام کے بنیادی ترین حقوق نظرانداز کر دیے گئے ہیں جس وجہ سے حتی فلسطینیوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آخری ہفتے طے کر رہی ہے تو اس بات کا خطرہ پایا جاتا ہے کہ کہیں یہ منصوبہ تاریخ کے کوڑے دان کا شکار نہ ہو جائے۔ لہذا غاصب صہیونی حکمران اسے ہر قیمت پر زندہ رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ چونکہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سینچری ڈیل نامی منصوبے کے اصلی حامیوں میں سے ہیں لہذا اسرائیلی وزیراعظم کی ان سے حالیہ ملاقات کا ایک مقصد اس منصوبے کو جاری رکھنا ہے۔

3)۔ ایران سے مقابلہ
اسرائیلی روزنامے "یسرائیل ہیوم” نے ایک خبر شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کی موجودگی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات کا ایک اہم مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اتحاد تشکیل دینا ہے۔ اس اخبار کا دعوی ہے کہ جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو علم ہوا کہ امریکہ کے نئے منتخب صدر جو بائیڈن ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپس شامل ہونا چاہتے ہیں تو انہوں نے سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے اپنے اتحاد کو منظرعام پر لانے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ یہ اتحاد کافی عرصے سے تشکیل پا چکا ہے لیکن اب تک اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔ بنجمن نیتن یاہو اس اتحاد کو منظرعام پر لا کر ایران کے خلاف عملی اقدامات انجام دینے کے درپے ہیں۔

4)۔ سعودی دربارہ میں شہزادہ محمد بن سلمان کی پوزیشن مضبوط کرنا
شہزادہ محمد بن سلمان نے جب سے ولیعہد کا عہدہ سنبھالا ہے اپنے سیاسی مخالفین خاص طور پر سلطنتی خاندان سے تعلق رکھنے والے مخالف شہزادوں کے خلاف انتہائی سخت اقدامات انجام دیے ہیں۔ لہذا سلطنتی خاندان سمیت ملک کے سیاسی حلقوں میں ان کی محبوبیت کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ ایسی صورتحال میں انہیں بیرون ملک قوتوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کی موجودگی میں غاصب صہیونی رژیم کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ان کی حالیہ ملاقات کا ایک مقصد ملک کے اندر مختلف سیاسی دھڑوں پر اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ انہوں نے اس ملاقات سے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اسرائیلی حکمرانوں سمیت دیپبلکن سیاست دانوں کی حمایت سے بھی برخوردار ہیں۔ یہ ملاقات شہزادہ محمد بن سلمان کیلئے اپنا اقتدار باقی رکھنے کیلئے ایک ضرورت تھی۔
تحریر: علی احمدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button