یکم ذی قعد، ولادت حضرت فاطمہ معصومہؑ و آغاز عشرہ کرامت
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) دین مبین اسلام کی اس عظیم المرتبت خاتون کا اسم مبارک فاطمہ اورآپ کا مشہور ترین لقب معصومہ ہے ۔قم المقدسہ میں آپ کے مدفون ہونے کی وجہ سے آپ معصومہ قم کے نام سے معروف ہيں ۔
جناب فاطمہ معصومہ قم سلام اللہ علیھا کے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اوروالدہ ماجدہ جناب نجمہ خاتون ہیں اورآپ حضرت امام رضاعلیہ السلام کی ہمیشرہ گرامی ہيں ۔
جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا علوم آل محمد پر مکمل دسترس رکھتی تھیں روایتوں میں آپ کی زیارت کا بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیاہے
پورے سال دنیا بھر سے اہل بیت عصمت وطہارت کے شیدائی قم المقدسہ میں آپ کی زیارت سے شرفیاب ہونے کے لئے آتے ہيں اوراپنی مرادیں لے کرجاتے ہيں۔
آج قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے حرم میں زائرین کی بہت بڑی تعداد جو پورے ایران اوردنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہيں آپ کا جشن ولادت انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ منارہے ہيں ۔ایران میں یکم ذی القعدہ سے گیارہ ذی العقدہ تک جب امام رضاعلیہ السلام کا یوم ولادت باسعادت ہے عشرہ کرامت منایا جاتا ہے۔ آپ کا شمار اہل بیت رسول (ص) کی بلند مرتبہ خواتین میں ہوتا ہے۔
حضرت معصومہ نے اپنے بھائی حضرت امام رضا (ع) کے خراسان آنے کے ایک سال بعدان سے ملاقات کی خاطر مدینے سے خراسان کا سفر کیالیکن سفر کے دوران علالت کی وجہ سے شہر قم میں قیام پذیرہوئیں جہاں 17 دن کے قیام کے بعد علالت کے باعث یا بعض روایات کے مطابق دشمنوں کی طرف سے کھانے میں زہر دینے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔آپ کو قم میں ہی سپرد خاک کیا گیا ۔
قم میں حضرت معصومہ (س) کا روضہ آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں ہر خاص و عام حاضری دیتا ہے ۔آپ کے روضے کےنزدیک عالم اسلام کی عظیم ترین دینی درسگاہ قائم ہے ایسی درسگاہ جو علمی اور دینی اہداف کے علاوہ استقامت ، پائیداری اوراسلامی قیام کے مرکز کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔جناب فاطمۂ معصومہ پہلی ذیقعدہ کومدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں ، آپ کے پدر گرامی حضرت موسیٰ ابن جعفر ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام (ص) نے برسوں پہلے فرمادیا تھا کہ” موسیٰ ابن جعفر میرے حقیقی پیرو ، میرے دوست اور میرے منتخب کردہ ہیں "۔ اور آپ کی والدہ جناب نجمہ خاتون بھی اپنے زمانے کی پاکباز ترین خاتون سمجھی جاتی تھیں جن کو ان کے فرزند علی رضا علیہ السلام کی ولادت کے بعد طاہرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
جناب معصومہ ایسے پاک و پاکیزہ ماحول میں پرورش کے سبب علم و معرفت و کمال کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں اور وہ مقام حاصل کرلیا کہ آپ کو عنفوان شباب میں ہی محدثہ ، شفیعہ ، معصومہ اور کریمہ کے خطاب سے یاد کیا جانا لگا تھا ۔ مورخین نے لکھا ہے ایک دن ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے کچھ چاہنے والے مدینہ منورہ آئے اور امام کے عصمت کدہ پرکچھ فقہی سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے لیکن یہ سن کر انہیں سخت مایوسی ہوئی کہ امام عالی مقام مدینہ سے کہیں باہر تشریف لے گئے تھے ۔انہوں نے اپنے سوالات جو وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھنا چاہتے تھے قلمبند کئے او چاہتے تھے کہ گھر میں بھجوادیں کہ امام تحریری شکل میں ان کے جوابات بعد میں دے دیں اسی اثناء میں ایک چھ سات سالہ لڑکی گھر سے باہر آئی اوران سے خطوط کی شکل میں ان کے تحریر کردہ سوالات لئے اور کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا اور تھوڑی دیر میں ہی ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر لائی اور ان کے سپرد کردیئے ۔ ان لوگوں کے درمیان ستر سالہ بوڑھے افراد بھی تھے جنہوں ایک عمر اہلبیت (ع) سے عقیدت و محبت میں گزاری تھی مگر اس طرح کا منظر دیکھنے کو نہیں ملا تھا کہ ایک چھ سات سال کی لڑکی ان کے فقہی سوالات کے جواب اس انداز میں تحریر کردے ۔ چنانچہ یہ لوگ خوشی خوشی واپس ہوئے او مدینہ سے اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگئے ۔
مدینہ سے نکلتے ہی راستے میں اتفاق سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام واپس آتے ہوئے دکھائی دئے اور وہ لوگ امام کی زیارت کے لیے اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور امام کی خدمت سلام و ارادت کا اظہار کرتے ہوئے گھر پر حاضری اور خطوط کے جوابات مل جانے کی پوری تفصیل امام علیہ السلام کے سامنے بیان کردی ، امام موسیٰ کاظم علیہ اسلام نے خطوط پر ایک نظر ڈالی اور چہرہ کھل اٹھا ، اور اسی آسمانی سکراہٹ کے ساتھ تین مرتبہ فرمایا "فداہا ابوہا "اس کا باپ اس پر فدا ہوجائے ۔
سنہ 179 میں جس وقت ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قید کر کے بغداد کے جیل خانے میں ڈالا ہے جناب فاطمۂ معصومہ چھ سات سال کی تھیں لہذا آپ اسی زمانے سے امام علی رضا علیہ السلام کے گھر میں ان کے ساتھ رہنے لگیں اور بھائی کی سرپرستی میں ہی علمی عرفانی اور اخلاقی کمالات حاصل کئے ۔ جناب فاطمہ معصومہ مدینہ کی خواتین کے درمیان نبی اکرم کی احادیث بھی نقل فرماتی تھیں اور عباسی دور کی غبار آلود فضاؤں میں بھی حق و حقانیت کی شمعیں روشن کئے ہوئے تھیں ، چنانچہ حدیث غدیر اور حدیث منزلت کے راویوں میں آپ کا نام بھی ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ حضرت علی (ع) کے دوستوں کی شان و منزلت میں بھی آپ نے معصومین علیہم السلام نے احادیث نقل کی ہیں ۔
سنہ 198 میں جب امین اپنے بھائی مامون کے ہاتھوں قتل ہوگيا او عباسی حکومت پوری طرح مامون کے ہاتھ میں آگئی تو مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلا لیا او معصومۂ قم کو بھائی سے جدائی کا غم سہنا پڑا جو آپ کے لیے سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا بالآخر سنہ 201 میں آپ نے بھی اپنے چند دوسرے بھائیوں اور عزيزوں کے ساتھ امام رضا علیہ السلام سے ملاقات کے لیے خراسان کا سفر کیا مگر جس وقت آپ شہر ساوہ میں تھیں راستے میں ہی بھائی کی شہادت کی خبر ملی اور آپ برداشت نہ کرسکیں اور سولہ سترہ دن کے بعد ہی درد فراق میں مبتلا یہ بہن بھائی کی خدمت میں پہنچ گئی اور قم میں ہی آپ کو دفن کردیا گیا ۔
امام رضا علیہ السلام نےاپنی زندگی میں ہی آپ کی منزلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: جو شخص بھی معصومہ کی قم میں زیارت کرے گا اس نے گویا میری مشہد میں زيارت کی۔