مضامین
کیا دہشت گرد فورسز سے زیادہ مضبوط ہیں ؟
تازہ ترین اطلاع کے مطابق خیوص کے گاوں میں شدید لڑائی ہورہی ہے کہا جاتا ہے کہ خیوص پر دہشت گردوں کے حملے کو روکتے ہوئے کل آٹھ کے قریب شیعہ شہید ہوچکے ہیں
تو دوسری طرف رہائشی علاقوں پر طالبان دہشت گردوں کی گولہ باری سے کئی خواتین اور بچوں کی شہادت واقع ہوئی۔
ملک میں زرائع ابلاغ اگرچہ دہشت گردوں کے ان حملوں کوپانی کا جھگڑا کہا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردوں کو اس علاقے میں امن،سکون کے تمام امکانات ختم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے چونکہ کرم ایجنسی ، لوئر کرم میں دہشت گردوں کے بڑے ٹھکانوں کے خاتمے کے بعد بیرونی طور پر طویل المدت محاصرے اور ناکہ بندی کے باوجود، اس وقت پورے ملک کا پرامن ترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے، دہشت گردوں نے شلوذان اور پہاڑیوں میں واقع “خیوص” نامی گاو ¿ں کہ جس کی اکثر آبادی شیعیان حیدر کرار کی ہے پر حملے شروع کردیئے ہیں جس کا مقصد اس پورے علاقے کو لڑائی اور جھگڑوں میں دھکیلنا اور مرکزی حکومت کی واحد اطاعت گذار مگر عالمی دہشت گردوں کے مقابلے میں حکومتی مدد سے محروم جنگ زدہ اور قلعہ بند قبائلی ایجنسی کے اندرونی امن و امان کو بھی تباہ کیا جاسکے اور مستقبل قریب میں پر امن شیعہ اور سنی قبائل کو امن کے قیام سے بھی دور رکھا جاسکے۔یہ سطور لکھنے تک علاقے میں اہل تشیع شہیدوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ہلاک کئے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد 24 تک پہنچ گئی ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق ہیلی کاپٹر ز کے حملے سے بھی بے گناہ اہل تشیع مدافعین کو شیدید نقصان پہنچا ہے۔ پہاڑون میں رہنے والے شیعہ قبائل کی فریاد پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ کر آتی ہے اور وہ خود ہی اس کی صدائے بازگشت سن لیتے ہیں کیونکہ ذرائع ابلاغ میں خاموشی یا پھر خبروں کی تحریف ہے اور حق و حقیقت کا اظہار و انعکاس اس زمانے میں کیمیا کی مانند ناپید ہے۔
علاقے کے مکینوں کے مطابق لڑائی کا آغاز ہی مقامی و غیر مقامی دہشت گردوں نے کیا ہے اور سرکاری پالیسی کے تابع ذرائع ابلاغ نے بھی مجبور ہوکر آج ہی اعتراف کرلیا ہے کہ علاقے میں دہشت گردوں نے مداخلت شروع کرلی ہے۔
روزنامہ جنگ نے لکھا ہے کہ دہشت گردوں کی مداخلت سے لڑائی میں تیزی آگئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد پہلے روز سے ہی اس لڑائی میں شریک ہیں اور جو مقامی لوگ ان کو دعوت دے چکے ہیں اور ان کو اپنے گھروں مین بسا رہے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر پرامن ملکی شہریوں کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ بھی تو دہشت گرد ہیں جو ملک کے امن و امان کو تباہ کررہے ہیں اور حکومت کی رٹ کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر حکومتی فورسز کے بعض عناصر (جیسا کہ کرنل مجید جیسے افراد)دہشت گردوں کی پشت پناہی نہ کر رہے ہوتے تو یہ لڑائی اب تک ختم ہوچکی ہوتی کیونکہ علاقے کے لوگ بہت بہتر انداز میں اپنا دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں گو کہ ان کے پاس نہ تو بھاری ہتھیار ہیں اور نہ ہی سرکاری اور نیٹو یا امریکی فورسز کی جانب سے ان کی مدد کی جارہی ہے جبکہ دہشت گرد جو ہتھیار استعمال کررہے ہیں وہ پاکستانی افواج کے لئے بھی غیر معروف ہیں چنانچہ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دہشت گردوں کو ہمسایہ ملک پر قابض بیرونی افواج کی ہمہ جہت مدد بھی حاصل ہے اور انہیں افغانستان کے راستے سے بیرونی قوتوں سمیت ملکی عملداری کے خلاف بغاوت کرنے والے دہشت گرد ٹولوں سے بھرپور امداد مل رہی ہے جبکہ سرکاری فورسز کے بعض عناصر کی نظر کرم بھی جنگ کی شدت میں مو ¿ثر ہے۔
پاراچنار سے 5 میل کے فاصلے پر شلوزان کی حسین وادی واقع ہے جو گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل حملوں کا سامنا کررہا ہے۔ اس گاو ¿ں کی شمالی پہاڑیوں میں منگل قبائل کا بسیرا ہے جو 2007 میں حکومت اور طالبان کے مشترکہ اقدامات کے باوجود پر امن شیعہ باشندوں کی طرف سے کسی حملے کا نشانہ نہیں بنے مگر ان کی طرف سے مسلسل شرارتیں ہوتی رہیں جن میں سے ایک شرارت پانی کی بندش کا مسئلہ تھا جو مسلسل
جاری رہا لیکن شیعہ قبائل نے اس کو لڑائی کا بہانہ بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جب بھی ان لوگوں نے اپنے یزیدی اسلاف کی روایت پر چلتے ہوئے پانی بند کیا اہل تشیع نے حکومت کی وساطت سے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔
حال ہی میں مختلف علاقوں کے طالبان دہشت گردوں نے افغانستان جا کر دشوار گذار پہاڑی راستوں سے گذر کر اس ان پہاڑی دیہاتوں کو اپنا مسکن بنالیا ہے اور انھوں نے بھاری ہتھیار بھی اس علاقے میں منتقل کئے ہیں اور یہ دیہات اب عوام کی سکونت کے مقامات کی بجائے دہشت گردی کے بڑے اڈے میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ان دیہاتوں کے پہاڑی باشندوں اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے دہشت گردوں نے مل کر پہاڑی دروں میں کیمپ قائم کئے ہیں اور بعید از قیاس نہیں ہے کہ القاعدہ کے بیرونی و اجنبی دہشت گرد اور ان سے منسلک مقامی دہشت گرد ٹولے بھی جو اس وقت طالبان کی شکل میں منظم ہوئے ہیں اس علاقوں میں آئے ہوئے ہوں جس کا ثبوت ان کی جانب سے جدید ہتھیاروں سے شدید گولہ باریاں ہیں جن کا نشانہ شلوزان اور ملحقہ شیعہ علاقے ہیں۔
دو ہفتے قبل اس علاقے میں اس وقت لڑائی کا آغاز ہوا
جب مقامی اور غیر مقامی دہشت گردوں نے شلوزان کے اوپر واقع پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کرکے شلوزان کو بھاری ہتھیاروں کا نشانہ بنانے لگے۔
جب مقامی اور غیر مقامی دہشت گردوں نے شلوزان کے اوپر واقع پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کرکے شلوزان کو بھاری ہتھیاروں کا نشانہ بنانے لگے۔
علاقے کے مکینوں کا خیال ہے کہ گویا مرکزی حکومت نے جان کر ان کو گذشتہ ساڑھے تین برسوں سے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے تا کہ یہاں کے عوام بھی مجبور ہوکر دیگر قبائلی علاقوں کے عوام کے نقش قدم پر چلنا شروع کریں اور سرکاری فورسز کو اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کریں تا کہ حکومت کو یہاں بھی فوجی آپریشن کے بہانے عوام کے قتل عام کا موقع مل سکے!!۔
اس وقت شلوزان کی شمالی پہاڑیوں میں طالبان کے مختلف گروپ تعینات ہیں جو شلوزان اور ملحقہ علاقوں پر بھی حملے کررہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد مکانات اور مساجد کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن
تکفیری طالبان دہشت گردوں کے جانی نقصان کے صحیح اعداد و شمار کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔
دوسری طرف سے کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل نے حکومت سے ایجنسی میں طویل بد امنی کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھا نے کا مطالبہ کرتی ہوئی فورسز کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
پاراچنار میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قبائلی عمائدین اور علماءنے کہا ہے کہ علاقہ طویل بدامنی کے باعث ہر میدان میں تباہ ہوگیا ہے علاقے کے لوگ مزید بد امنی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔
قبائلی رہنماو ¿ں اور علماءنے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لئے طویل خاموشی ترک کر کے قدم بڑھائے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق مظلوم عوام نے اپنے تین دیہاتوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرالیا ہے جو درحقیقت ان کے اہم اڈے تھے اور دہشت گردوں نے ان دیہاتوں کو پہلے ہی دہشت گردی کی غرض سے باشندوں سے خالی کرالیا تھا چنانچہ تینوں دیہات بالکل خالی تھے اور ان میںکوئی بھی نہیں تھا.
اس رپورٹ کے مطابق دہشت گرد پسپا ہونے پر مجبور ہوکر عقبی پہاڑیوں کی جانب فرار ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ مفتوحہ دیہات شلوزان کے شیعہ باشندوں کی آبائی جائیداد کا حصہ ہیں جن میں کسی زمانے میں افغانستان سے آئے بعض خاندانوں کو عارضی طور پر بسایا گیا تھا جو بعد میں نہ صرف پہاڑی علاقے کے مالک بن بیٹھے تھے بلکہ اپنے محسنون کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
اس وقت نرئی نامی صرف ایک گاو ¿ں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہے جو مذکورہ دیہاتوں سے کافی دور ہے جبکہ آج رات واحد شیعہ گاو ¿ں پر بھاگنے والے دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ بدستور باقی ہے