حدیث کساء میں مضمر اخلاقی پہلو (خصوصی تحریر)
تحریر: محمد ذیشان حیدر
آئمہ علیھم السلام سے ہم تک بہت سی دعائیں پہنچی ہیں کہ جو اپنے اندر نورانی مطالب کا بیش بہا قیمتی خزانہ رکھتی ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم نے جو ظلم اللہ کے قرآن کے ساتھ کیا ہے وہی سلوک آئمہ کے فرامین اور خصوصی طور پر دعاؤں کے ساتھ کیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہے کہ کلام معصوم علیہم السلام پر غور نا کیا جائے؟ آئمہ نے اپنی دعاؤں کے ذریعے امت تک جو نظام زندگی پہنچایا ہے کتنی بڑی ناانصافی کی بات ہے کہ انسان ان مطالب پر غور نا کرے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ان دعاؤں کو پڑھنے کا ایک عظیم ثواب ہے لیکن ان دعاؤں میں آئمہ علیھم السلام نے زندگی گزارنے کے کچھ سنہری اصول بیان کئے ہیں۔ جنہیں ہم نظر انداز کرتے ہیں۔
حدیث کساء آئمہ علیھم السلام کے ظاہری معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ جس کو اس کی تمام تر جزئیات سمیت زمانہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس حدیث کو تقریبا ہم ہر شب جمعہ کو تلاوت کرتے ہیں اور محافل حدیث کساء کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس عظیم المرتبت حدیث کے راوی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری (رض) ہیں، انہوں نے یہ حدیث جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے روایت کی ہے۔ اس حدیث میں جہاں آئمہ علیھم السلام کے فضائل و مناقب کا ذکر ہوا ہے۔ وہاں گھریلو اخلاق کا ایک اعلٰی نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے کیونکہ آئمہ علیھم السلام نے ہم تک اکمل دین پہنچایا ہے۔ جس میں ہر شعبہ زندگی کے متعلق ہدایت موجود ہے۔ یہاں ہم نے ان اخلاق حسنہ پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
* اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت رسالت علیھم السلام ایک دوسرے کے لئے کس قدر محبت اور احترام کے قائل تھے۔ اس کا نمونہ ہمیں اس حدیث شریف پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ایک خاندان کو آپس میں کس طرح ادب و احترام کے ساتھ اور پیار محبت سے رہنا چاہیئے۔
* گھر میں داخل ہونے کے کیا آداب ہیں۔ امام حسن علیھم السلام گھر میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی والدہ ؑ پر کس طرح سلام بھیجتے ہیں اور سیدہ ؑ کیسے اپنے بیٹے کو سلام کا جواب دیتی ہیں۔ اسی طرح امام حسین علیھم السلام گھر میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی والدہ کو سلام کرتے ہیں اور سیدہ اپنے بیٹے کو جواب دیتی ہیں۔ اس طرح جب مولا علی علیہ السلام گھر میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی زوجہ کو سلام کرتے ہیں اور سیدہ کس طرح اپنے خاوند کے سلام کا جواب دیتی ہیں۔ گویا کہ ایک معاشرے کی تربیت ہو رہی ہے۔
* کس طرح سے اس گھرانے میں شخصیات پروان چڑھ رہی ہیں۔ خواہ وہ ایک بچہ ہی کیوں نا ہو کس طرح اس کی شخصیت نکھاری جا رہی ہے کہ حسنین علیھما السلام آ کر سلام کرتے ہیں تو ماں کس انداز سے جواب دیتی ہیں کہ فرماتی ہیں کہ‘‘ تم پر بھی میرا سلام ہو اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور اے میرے میوہ دل ’’ اور یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ سیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک ہی جواب دیا ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اولاد کے درمیان یکسانیت رکھنی چاہیئے۔ جب حسنین علیھما السلام اپنے نانا ﷺ کے پاس آتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں ‘‘ سلام ہو آپ پر اے ہمارے نانا جان اور اے رسول خدا ﷺ کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے پاس زیر کساء داخل ہو جاؤں ’’ اور آگے سے رسول خدا ﷺ کس طرح جواب دیتے ہیں کہ امام حسن ؑ سے فرماتے ہیں ‘‘ تم پر بھی سلام ہو اے میرے بیٹے اور میرے حوض کوثر کے مالک میں تم کو اجازت دیتا ہوں’’ اسی طرح امام حسین علیہ السلام پاس آ کر سلام کرتے ہیں ‘‘ سلام ہو آپ پر اے نانا جان اور سلام ہو آپ پر اے بزرگوار جن کو خدا نے منتخب کیا ہے کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ دونوں کے ساتھ چادر میں آ جاؤں ’’ رسول خدا جواب میں فرماتے ہیں ‘‘ تم پر بھی سلام ہو اے میرے فرزند اور اے میری امت کی شفاعت کرنے والے میں تمہیں اجازت دیتا ہوں ’’ گویا کہ ایک بچہ ہی کیوں نا ہو اس کی اہانت نا کرو اس ایسے ناموں سے مت پکارو کہ جس سے اس کی شخصیت کی اہانت ہو۔
*حدیث کساء میں یہ ظریف نکتہ بھی پنہاں ہے کہ خاوند جب گھر میں داخل ہو تو اپنی زوجہ کو بھی سلام کرے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی مرد اپنی بیوی کا احترام کرے تو اس "زن مرید” کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ لیکن مولا متقیان علی علیہ السلام اور وہ علی کہ زبان وحی سے جس کے لئے نکلا ہو کہ کہ "اگر زمین کا تمام پانی سیاہی بن جائے تمام درخت قلم بن جائیں زمین قرطاس بن جائے لکھنے والے فرشتے ہوں اور اے علیؑ آپ کے فضائل لکھنا چاہیں تو لکھنے سے قاصر رہیں گے” اتنے فضائل و کمالات والا علیؑ جب گھر میں داخل ہو رہا ہے تو کس طرح اپنی زوجہ کو سلام کر رہا ہے۔ "تم پر سلام ہے اے رسول خدا ﷺ کی بیٹی” اور سیدہ اپنے شوہر کو جواب دیتی ہیں۔ "آپ پر بھی سلام ہو اے ابالحسن اور اے امیرالمومنین”۔ یعنی خاندان کا ہر فرد دوسرے کے مقام و منزلت سے آشنا ہے اور ہر ایک کے مرتبے کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ایک خاندان، ایک گھر کیسا ہونا چاہیئے، اس حدیث شریف کساء میں اس کا عملی نمونہ پیش کیا گیا ہے۔
حدیث کساء فقط ایک قصہ نہیں ہے بلکہ ایک بےمثال درس ہے کہ جس پر عمل کر کہ ہم نا صرف آخرت بلکہ اس دنیا میں بھی اپنے گھر کو جنت بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم تعلیمات محمد و آل محمد علیھم السلام پر عمل کریں تو ہمارا گھر بھی فرشتوں کا مختلف بن جائے ۔ آئمہ کا کلام فقط واہ واہ کے لئے ہی نہیں بلکہ کلام معصوم علیہ السلام بعد
از قرآن امت کی ہدایت کا ایک بےمثال و بےعیب وسیلہ ہے۔ خدواند عالم سے دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں محمد و آل محمد علیھم السلام کے طریق پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے کیونکہ یہ ذوات مقدسہ ہی صراط مستقیم ہیں اور یہی وہ ہستیاں ہیں کہ جو تا قیام قیامت واسطہ فیض الہی ہیں۔