کیا گلگت بلستان میں نظام ولایت فقیہ نافذ ہوسکتا ہے؟ حقائق جانئے!
گلگت بلتستان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی وضاحت ۔۔۔
آبادی کا تناسب:
شیعہ 40 فیصد
سنی 30 فیصد
اسماعیلی 25 فیصد
نوربخشی 5 فیصد
کل سات اضلاع میں صرف ضلع بلتستان ایسا ضلع ہے جہاں 90 فیصد شیعہ آبادی ہے۔
قانون ساز اسمبلی کی کل نشستیں 24
1994 میں جب تحریک جعفریہ پاکستان نے ایک شیعہ سیاسی جماعت کے طور پر پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا تھا اور جس وقت ملت میں کوئی اختلاف بھی نہیں تھا اور یہ تاثر عام تھا کہ تحریک جعفریہ اگر کسی کھنبے کو بھی ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائیگا، اس الیکشن میں بھی تحریک نے کل 9 نشستیں حاصل کی تھیں۔
ضلع بلتستان کی پانچ نشستوں پر خالصتاً شیعہ امیدوار ہی جیت سکتے ہیں، جبکہ ضلع گلگت کی تین نشستوں پر آبادی منقسم ہے اور ان سے کوئی بھی جیت سکتا ہے۔۔ ضلع ہنزہ نگر کی دو نشستوں پر شیعہ امیدوار ہی جیت سکتا ہے۔ جبکہ ضلع دیامر، ضلع گانچھے، ضلع غذر اور ہنزہ گوجال کی سیٹ سے کوئی شیعہ جیت ہی نہین سکتا کیونکہ یہاں بلتریب سنی، نور بخشی اور اسماعیلی واضح اکثریت میں ہیں۔
یہ اعداد و شمار ان کیلئے شیئر کیئے جا رہے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صرف شیعہ بنیاد پر حکومت بن سکتی ہے، یہ صرف زبانی باتیں ہیں، زمینی حقائق اس کے بر خلاف ہے، شیعہ آبادی مجموعی طور پر 40 فیصد ہے۔۔۔ اور کیا 40 فیصد شیعہ ملکر نظام ولایت فقہی اور اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں؟؟؟
اسی لئے دوستوں سے گزارش ہوگی کہ کسی بھی علاقے کے بارے مین سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کی بجائے تھوڑا گوگل کا سہارا لے لیا کریں۔۔ انفارمیشن ایج ہے امید ہے یہ حقائق جاننے کے بعد گلگت بلتستان کے انتخابات اور آئندہ کے بارے میں آپ رائے دینے سے پہلے محتاظ رہینگے۔۔
بشکریہ: پولیٹکل شیعہ فورم