مضامین

روسی نیوز ایجنسی کا آیت اللہ خامنہ ای کے دور زعامت پر تجزیہ

روسی اسپوٹنیک[Sputnik] نے ایک مقالے میں قائد انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای کی شخصیت اور آپ کی زعامت کے دور کا تجزیہ کیا ہے ۔

اسپوٹنیک نے اس مقالے میں لکھا ہے :جمہوری اسلامی ایران کے قائد آیت اللہ[امام] خامنہ ای نے انقلاب ایران کے بانی[حضرت امام خمینی] کی رحلت کی ۲۶ ویں برسی کے موقعے پر اپنی ایک تقریر میں چند نکتوں کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جن میں سے کچھ ملکی تھے اور کچھ بین الاقوامی ، لیکن مجموعی طور پر آپ نے اپنے کلام کے دوران دوسروں کے لیے متعدد پیغام ارسال کیے ۔

اس تقریر سے ایک دن پہلے صدر جمہوریہ جناب روحانی صاحب کی باتوں پر بہت حاشیے لگائے گئے اور اس سے تشنج بھی پیدا ہوا تھا ۔ایسا اتفاق کہ جو اس سے پہلے سید حسن خمینی اور محمود احمدی نژاد کے لیے بھی پیش آ چکا تھا ۔ روحانی کے بعض طرفدار کہ جو اس طرح کے حالات کے رونما ہونے کی پیشین گوئی کر رہے تھے انہوں نے اس کی حمایت کی اور جوابی نعرے لگائے کہ جس چیز نے تقریر میں خلل ڈال دیا ۔

احمدی نژاد کو بھی اپنی صدارت کے اواخر میں اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا ،اور حسن خمینی نے بھی جب 2009 کے انتخابات پراعتراض کرنے والوں کی مشروط اور جزوی حمایت کی تھی تو ان کا بھی یہی حشر ہوا تھا روحانی کوجوہری پروگرام پر مغرب کے ساتھ مذاکرات کی وجہ سے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے البتہ ایران کی عدلیہ کے سربرا نے اس موضوع کی جانچ پڑتال کرنے اور قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے ۔

اس نیوز ایجینسی نے امام خمینی (رہ ) کے حرم میں جمہوری اسلامی کے بانی کی رحلت کی برسی کے موقعے پر ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای کی سالانہ تقریر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے : سب کو آیت اللہ[امام] خامنہ ای کی تقریر اور آپ کے موقف کا انتظار تھا اس لیے کہ حکومت کا جو موقف ہوتا ہے وہ ہمیشہ انہی کی زبان سے بیان ہوتا ہے اور انہی کی بات اول و آخر مانی جاتی ہے ۔

آیت اللہ[امام] خامنہ ای نے اپنی تقریر میں چند کلیدی نکتوں پر توجہ مرکوز کی ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ہر شخص اپنی طرف سے امام خمینی (رہ) کے ساتھ یادگار واقعات نہ بنائے اور انہیں بیان کر کے غلط سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے اور نہ اس طرح وہ اپنے سیاسی موقف کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے ۔ اس لیے کہ بعض حالات میں بعض لوگ امام خمینی (رہ) کا وہ قول نقل کرتے تھے کہ جو ان کے مفادات کے حق میں ہوتا ہے اور اس قول کی بنیاد کیا ہے اور اس کے دلایل کیا ہیں ان کو ذکر کیے بغیر صرف اس حصے کو نشر کرتے ہیں کہ جس سے ان کے سیاسی اغراض پورے ہوتے ہیں ۔بعض حالات میں جو قول نقل کیے گئے وہ مستند بھی نہیں تھے اور یہی چیز انقلاب کے بانی کی باتوں میں تحریف کے احتمال کو جنم دیتی ہے ۔

اسپوٹنیک نے ولی فقیہ حضرت امام خامنہ ای کی تقریر کے اس حصے کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے : البتہ آقائی[امام] خامنہ ای کی گفتگو کے اس حصے کا تعلق چونکہ اصلاح طلبوں سے تھا تو ذرائع ابلاغ میں خاص کر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس کو بہت رنگ آمیزی کر کے پیش کیا گیا لیکن آپ کی تقریر کا اہم تریں حصہ آخری حصہ تھا ۔

آقائی[امام] خامنہ ای نے اپنی تقریر میں ایران کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے پر تاکید کی اور یہ وہ مسئلہ ہے کہ مغرب جس پر ایران کے ساتھ گفتگو میں بہت توجہ دے رہا ہے ،اسی طرح انہوں نے اس کا مقابلہ کرنے پر زور دیا کہ جس کا نام امریکی اسلام ہے اور بعض واقعات کا ذکر کیا جیسے تکفیری انتہا پسند گروہ اور داعش کے دہشت گردوں کا ذکر کیا اور القاعدہ اور اس کے حامیوں کا ذکر کرکے انہیں امریکی اسلام کا پیرو کار قرار دیا ۔

انہوں نے اس مسئلے کی جانب اشارہ کیا کہ امریکی اپنے "امریکی اسلام” کے ذریعہ مسلمانوں کو ایکدوسرے کے دست بہ گریبان بنانے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں تاکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے چہرے کو خراب کریں ۔ایران کے رہبر نے شیعہ اور سنی کے اتحاد پر ایران کے اصلی موقف کے عنوان سے تاکید کی اور فرمایا کہ "امریکی اسلام ” اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہے ۔

آیت اللہ[امام] خامنہ ای نے تہران میں مقیم غیر ملکی سفیروں کی موجودگی میں مذاکرات میں ایران کے نہ تبدیل ہونے والے موقف پر زور دیا اور کہا ایران کو امریکہ پر بالکل اطمئنان نہیں ہے ۔آپ نے امریکہ کے ایک صدر رونالڈ ریگن کے امام خمینی (رہ) کو لکھے گئے ایک خط کی جانب اشارہ کیا کہ جس نے اس دور میں اپنی چرب زبانی سے ایران کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی یہ ایسا ہی ہے کہ جیسا اوباما نے امام خامنہ ای کے نام خط لکھا تھا ،یہ ایسا اشارہ ہے کہ تمام تجزیے اور تحلیلیں کہ جوا س بات پر مبنی ہیں کہ اگر جوہری سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو ایران اور امریکہ کے حالات معمول پر آجائیں گے اس پر انگلی اٹھاتی ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے رہبر اور ایرانی تاری
خی دلایل کی بنا پر امریکیوں پر بالکل بھی اطمئنان نہیں رکھتے ۔شاید ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان گفتگو سے دونوں ملکوں کے درمیان تناو میں کچھ کمی آئے لیکن ابھی تک تو بے اطمئنانی باقی ہے ۔

رہبر جمہوری اسلامی نے امام خمینی (رہ ) کے طرز عمل اور موقف کی مفصل تشریح کرنے کے بعد خود کو اسی طرز عمل کا علمبردار بتایا اور تاکید کی کہ کسی بھی قیمت پر وہ اس بات پر تیار نہیں ہیں کہ کسی کو اجازت دیں کہ ایران کے نہ بدلنے والے موقف کی اور اس کی اصولی سیاست کی حد کو پار کرے۔

روس کی اس نیوز ایجینسی نے آگے لکھا : اگر آقائی [امام] خامنہ ای کی ۲۶ سال کی رہبری پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ نہ صرف ایک دینی اور مذہبی شخصیت ہیں بلکہ ایک تجربہ کار کہنہ مشق سیاست مدار بھی ہیں کہ جو ایران کو ہر نشیب و فراز سے نکال کر آگے لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بہر صورت آپ کی سیاست اور رہبری کے نتیجے میں ایران نے مشرق وسطی میں اپنے کلیدی دشمنوں صدام حسین اور طالبان کو ٹھکانے لگانے میں کامیابی حاصل کی ہے ،اور اگر بالقوہ ایران کو کچھ حادثے پیش آنےو الے تھے تو ان سے عبور کر پایا ہے ۔

ایران کی موجودگی اور اس کے اثر و رسوخ اپنی سرحدوں کے ہزاروں کیلو میٹر باہر تک پہنچ چکے ہیں یہ ایسی چیز ہے کہ جو سیاسی ۔فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے اپنی سرحدوں سے دفاعی سر حدوں کو چند ہزار کیلو میٹر دور لے جانے کے مترادف ہے ۔

فوجی اور علمی اعتبار سے ایران اسلحے کی پیداوار اور فنون عالی کے قطب میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس ملک کی تاریخ کی شدید ترین اقتصادی پابندیوں کے بر خلاف اپنے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوا ہے ۔

اسپوٹنیک آخر میں لکھتا ہے :رہبر جمہوری اسلامی کا اس ملک کے اصولی نظریات پر اصرار، ان حساس حالات میں (کہ جب بہت ساروں کا خیال ہے کہ ایران کو زیادہ نرمی دکھانا چاہیے ،اور اپنے بعض اصولی نظریات سے پیچھے ہٹنا چاہیے ) یہ بتاتا ہے کہ جمہوری اسلامی ایران پانچ جمع ایک کے ساتھ گفتگو میں،ان بین الاقوامی فوجی ۔سیاسی حالات میں نہ صرف یہ کہ کسی کمزوری یا ضرورت کا احساس نہیں کر رہی ہے بلکہ مطمئن ہے جس طرح ایران نے اپنی سیاست سے کلیدی دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیا علاقے میں اپنے دوسرے حریفوں کو بھی شجاعانہ نرمی کے ساتھ اسی سیاست کے ذریعے چاروں خانے چت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا ۔

اسی بنا پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے دنیا کے بڑے ملک ایران کے سلسلے میں اپنے موقف کو بدل رہے ہیں چونکہ وہ مشرق وسطی میں امن و ثبات کی بحالی کے سلسلے میں ایران کے کردار سے واقف ہو چکے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button