مضامین

شہید سبط جعفر ۔۔۔ عاشق اہل بیت علیہ السلام

تحریر: یوشع ظفر حیاتی

 

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) 18 مارچ 2013ء، کراچی پاکستان میں پروفیسر سبط جعفر زیدی کی شہادت سے ملّت تشیّع  ایک محب وطن، عاشق اہل بیت (ع)، منتظرِ امام مہدی (عج)، ایک شفیق اور مہربان انسان سے محروم ہوگئی ۔ سبط جعفر کی شہادت ملت جعفریہؑ کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔اس کا ازالہ کرنا شاید ہی کبھی ممکن ہو۔ شہید نے اپنی تمام حیات مدح سرائی اہل بیت (ع)اور ملت جعفریہ کی سربلندی کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی شہادت ملت جعفریہؑ کوبڑا صدمہ دے گئی۔

آپ سادہ لباس زیب تن کئے رہتے۔ ایک پرانی سی موٹر سائیکل پر سوار ہوتے۔پورے شہر میں، سر وعدہ پہنچنتے ۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔  یہ شخص ایڈووکیٹ تھا۔  مصنف و شاعر اور سوز خوان تھا۔ قومی و سماجی کارکن تھا۔ ایک کالج کا پروفیسر تھا ۔ کئی مذہبی اور تعلیمی اداروں کا بانی تھا۔ پاکستان میں فن سوز خوانی اور مرثیہ خوانی کے مؤثر ترین بلکہ واحد ادارے، ادارہ ترویج سوز خوانی کا سربراه  تھا۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر شاعر و مداح اہلبیت (ع)تھا۔ ہزاروں شاگردوں کی مختلف میدانوں میں تربیت کی۔  طبیعت میں سادگی و خلوص تھا۔ اسی نے مزاج کو بہت شفیق کر دیا تھا۔ ہر ملاقات کرنے والا یہ سمجھتا تھا کہ استاد اسی سے اتنے قریب ہیں۔ بچے بڑے کا فرق ان کی نظر میں کیا تھا بس احترام کرنا تھا ہر انسان کا اور وہ بھی عبادت جان کر  .

 ہر وقت خوشگوار مزاج میں، دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے مشتاق تھے۔  ہر حال میں راضی برضائے الہی نظر آتے۔ ایکسیڈنٹ میں ہاتھ ٹوٹا۔ میری ان سے اسپتال میں ملاقات ہوئی۔ ہاتھ پر بندھا پلاسٹر دیکھا۔  خیریت دریافت کی۔ بولے:” بس طوطا پال لیا ہے!” آنکھ کا آپریشن ہوا ۔ پھر ملنے کا اتفاق ہوا۔  عیادت کی۔  بولے:” کچھ نہیں بس چند دنوں آرام کرنا تھا!”۔ نہ جانے کون سا دل دے کر خدا نے انہیں اس زمین پر بھیجا تھا۔ اتنی سادگی تھی کہ سادگی بھی شرما جائے۔

مولانا سید احمد میان زیدی راہی جہانگیر آبادی مرحوم ابن مولانا سید انوار الحسن زیدی کے گھر سن 1957ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔ تعلیم کے مراحل طے کرتے گئے۔ نمایاں امتیازی حیثیت رہی۔  متعدد مضامین میں ایم اے، بی ایڈ، ایل ایل بی کیا۔  جامعہ کراچی سے پوسٹ گریجویٹ سرٹیفکیٹ بزبان عربی بدرجہ امتیاز حاصل کیا۔ مدرسۃ الواعظین جامعہ امامیہ کراچی سے گریجویٹ مبلغ کورس بھی مکمل کیا ۔   اس میں ان کو ادیب اعظم، مفسر قرآن مولانا ظفر حسن نقوی امروہوی کی سرپرستی  نصیب ہوئی۔ مولانا پروفیسر سید عنایت حسین جلالوی صاحب کی نگرانی  بھی ملی۔

 عملی وکالت اور سول سروس سے دستبردار ہوئے۔  پبلک سروس کمیشن کی سفارش پر گورنمنٹ کالج (محکمہ تعلیم / حکومت سندھ) میں ایسوسی ایٹ پروفیسر، مشیر قانون و نگران امورِ طلبہ اور ناظم تقریبات مقرر ہوئے۔

 پیشہ وارانہ اور شعبہ جاتی وابستگیاں مختلف نوعیت کی تھیں۔ مختلف دینی، ادبی، علمی و سماجی و ثقافتی اداروں سے مختلف حیثیتوں میں وابستگی رہی۔ دورانِ طالب علمی اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے۔ (کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے کونسلر، FR چیئرمین پریس اینڈ پبلیکیشنز  اور چیئرمین اسپورٹس بورڈ۔ اس دوران اعلٰی سطح پر کرکٹ اور ٹیبل ٹینس بھی کھیلی)۔ انجمن محمدیﷺ قدیم (رجسٹرڈ) کے صدر اور انجمن سوز خوانان کراچی کے  عہدے دار رہے۔ انجمن محبان اولیاء کے مرکزی خادم و  بانی رکن تھے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن اور سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن کے رکن تھے۔   آرٹس کونسل آف پاکستان (کراچی) کی تاحیات رکنیت حاصل تھی۔  بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانی  کے بانی  تھے۔  انجمن وظیفہ سادات و مومنین پاکستان رجسٹرڈ کے مرکزی صدر (2005ء تا 2008ء) ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ بطور شاعر و سوز خوان مختلف ممالک کی سیاحت و زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نامور یونیورسٹیز (بالخصوس ہارورڈ یونیورسٹی) نے بطور ماہر فن خصوصی پذیرائی کی۔

۱۹۶۷ء میں  ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستگی رہی۔ خصوصاً کمپیئر، سوز خوان،مقرر، مہمان و صدر کی حیثیت سے بھی شرکت کی۔ جبکہ بطور شاعر و ناظم، نعت خوان ریڈیو ٹی وی سے طویل اور مستقل وابستگی رہی ہے۔ نارویجن ریڈیو / ٹی وی پر بھی بطور ادیب و شاعر و سوز خوان پروگرام کئے۔ نیز مختلف سرکاری اور نجی چینلز کے لئے خصوصی پروگرام تحریر ، تیار اور پیش کیے۔ بطور محقق و مصنف 1996ء پاکستان ٹیلی وژن نےصوتی علوم و فنونِ اسلامی پر "لحن عقیدت” کے نام سے دس خصوصی تحقیقی و معلوماتی پروگرام نشر کئے۔

 بطور شاعر و سوز خوان تقریباً 50 آڈیو، ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز میوزک سینٹر ،شالیمار میوزک سینٹر، رضوی کیسٹس، زیدی EMI ،باب العلم کیسٹ لائبریری، عترت AB پروڈکشن ، یاسین اسٹوڈیو ، جعفری کیسٹس ، پننجتن کیسٹس ، پیام فاؤنڈیشن، ، ترابی کیسٹس لائبریری، شاہ جی اسلامک سی ڈی سینٹر وغیرہ نے جاری کئے۔ ان میں سے خاصا مواد مختلف اداروں نے سی ڈی اور ویب سائٹ / انٹرنیٹ پر بھی جاری کر رکھا ہے اور مزید کام جاری ہے۔

اس کے علاوہ آپ کی تصانیف میں انٹر میڈیٹ اور ڈگری کلاسز کیلئے نصابی، امدادی نصابی کتب ہیں۔ یہ کتب1983ء سے 19
88ء کے دوران متعدد بار شائع ہوئیں۔ مطالعہ پاکستان، عمرانیات اور اطلاق عمرانیات وغیرہ نیز منتخبات نظم و نثر، "زادِ راہ”، "نشان راہ” اور صوتی علم و فنونِ اسلامی وغیرہ۔ علاوہ ازیں علمی، دینی، ادبی، سماجی اور فن و ثقافت کے حوالہ سے مختلف مقامی و قومی اور بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں مضامین و مقالات شائع ہوئے۔ بالخصوص روزنامہ جنگ، اخبار جہاں، عوام، نوائے وقت، قومی اخبار، پبلک، امن حریت، جہانِ چشت، تنظیم، ندائے اسلام، رہنما، نوائے اسلام، توحید، سنگم ٹائمز، عوامی مسائل، اصلاح، سفینہ (ناروے) اور دیگر جبکہ مختلف مجلوں، رسالوں اور خصوصی شماروں کی ادارت اور ترتیب و تدوین و اشاعت کی سعادت بھی حاصل کی۔ بالخصوص منتخب و معیاری کلام پر مشتمل مجموعہ کلام "بستہ” انتخاب بستہ اور گلدستہ وغیرہ شامل ہیں۔

تعلیم و تدریس کے حوالے سے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ تصنیف و تالیف اور شعر و سخن میں بھی بہت سے شاگرد ہیں۔ تاہم سوز خوانی کے حوالہ سے براہ راست استفادہ کرنے والے خواتین و حضرات کی تعداد بھی سو سے زائد ہے۔  کراچی و بیرون کراچی اور ملک سے باہر بھی کسی نذرانہ یا کرایہ آمد و رفت کے بغیر یہ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

  کسی بھی قوم کو اگر تباہ کرنا ہو تو اس کی علمی اور تربیتی بنیادوں کو کمزور کر دو، بس وہ قوم خود بخود تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اسی نظریہ کے پیش نظر ہزاروں جوانوں کے مربی اور مرد مومن استاد سبط جعفر کو ڈگری کالج لیاقت آباد کہ جس کالج میں وہ علم دوست جوانوں کو علم کی دولت سے مالا مال کیا کرتے تھے۔  آج دشمنوں نے بلاشبہ ایک بہت بڑے ہدف کا انتخاب کیا۔ علم دشمنوں نے اپنے ہدف کا نشانہ بنایا۔ وہ اس حملے میں شہید ہوگئے۔ ورثاء میں ایک بیٹا دو بیٹیاں اور ان کی اہلیہ شامل ہیں۔ آج ببانگ دھل یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مرثیہ نگاری کا قلم ٹوٹ گیا۔ علم کی مسند ویران ہوگئی؛  بلکہ کیا لکھوں، ایک انسان اس دنیا کی وحشی گری کا شکار ہوگیا۔ مگر یہ دشمن کی بھول ہے کہ وہ سبط جعفر کو شہید کر پایا ہے، کیونکہ سبط جعفر کسی شخص واحد کا نام نہیں بلکہ ہر باشعور انسان، علم دوست جوان اور اردو زبان عزاداران شہہ مظلوم کا نظریہ اور اسکی فکر کا نام ہے۔

چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button