مضامین

تکفیریت کو اسمبلی میں پہنچانے کا ذمہ دار کون؟

رپورٹ: اے اے زیدی

جھنگ میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 78 سے کالعدم جماعت کے رہنما اور پاکستان میں تکفیری دہشتگردی کی بنیاد رکھنے والے حق نواز جھنگوی کے بیٹے مسرور نواز جھنگوی کی خلاف توقع فتح نے پاکستان کے محب وطن حلقوں میں بے چینی کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے اور اس حوالے سے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ تکفیریت کو اسمبلی میں پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے۔؟ کہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ نون لیگ کی حکومت کا باقاعدہ منصوبہ تھا، بعض افراد کی رائے ہے کہ مسرور جھنگوی کی جیت میں ایجنسیوں نے کردار ادا کیا، کسی کا خیال ہے کہ تکفیریت کی یہ فتح 2 بڑی شیعہ قومی جماعتوں (مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماء کونسل) کی بہت بڑی سیاسی ناکامی اور اتحاد نہ ہونے کا نتیجہ ہے، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے سعودی آقا کی فرمائش پر اس الیکشن کو فوکس کیا اور درون خانہ ملی بھگت سے مسرور جھنگوی کی جیت میں کردار ادا کیا۔

اس ضمنی انتخاب میں کالعدم اہلسنت والجماعت کا آزاد امیدوار مسرور نواز جھنگوی 48 ہزار 563 ووٹ لیکر کامیاب قرار پایا، جبکہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار آزاد ناصر 35 ہزار 471 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ ضمنی انتخاب میں اصل مقابلہ کالعدم سپاہ صحابہ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مسرور نواز جھنگوی اور نون لیگ کے آزاد ناصر انصاری کے درمیان ہی تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی کے سرفراز احمد ربانی اور پی ٹی آئی کی ارفع مجید کے علاوہ کل 25 امیدوار میدان میں تھے، لیکن دیگر امیدوار خاطر خواہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دیگر امیدواروں میں شیخ فواد اکرم، محمد عارف عرف بوٹا، محمد عرفان، مظفر عباس، ملک محمد رفیق، ملک محمد سعید اختر، مہر اسحاق حسوآنہ، وقار احمد انصاری، وقاص حسن خان، استقلال حسین قیصر، جمشید اختر ککے زئی، حاجی خان پٹھان، ڈاکٹر عبدالجبار خان، رانا محمد فیاض خان، رانا محمد نسیم، سرفراز احمد رفیقی، سلطان محمود نظامی، شاہد نذیر، شہباز احمد گجر، شیخ حاکم علی، شیخ شیراز اکرم اور شیخ علی رضا ٹیپو شامل تھے۔

حلقے میں کل 171 پولنگ سٹیشنز بنائے گئے تھے، جو سارے حساس قرار دیئے گئے تھے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 2 لاکھ 16 ہزار 562 ہے۔ اب اس انتخاب کے حوالے سے اوائل میں اٹھائے گئے سوالات کے جوابات کی طرف آتے ہیں، حقیقت کو مدنظر رکھا جائے تو ان تمام سوالات کا ایک دوسرے سے ربط ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مسلم لیگ نون ہمیشہ کالعدم سپاہ صحابہ کے ساتھ درپردہ تعلقات اور ظاہری تعلقات کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنتی آئی ہے، یہ الیکشن اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ پاکستان میں سعودی مداخلت کیخلاف شیعہ قائدین خاص طور پر ایک شیعہ جماعت نے اہم رول ادا کیا اور یہاں سعودی عرب اپنے عزائم اس طرح سے مکمل ہوتا دیکھ نہیں پایا، جس کی وہ توقع رکھتا تھا، ادھر چوہدری نثار سے کالعدم جماعت کے رہنماوں کی ملاقات کو بھی خاصی اہمیت دی جا رہی تھی۔ اس حلقہ میں مسلم لیگ نون نے بظاہر اپنا امیدوار تو کھڑا کیا، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ درپردہ سرکاری مشینری مسرور جھنگوی کی حمایت میں سرگرم رہی۔ الیکشن کے بعد مسرور جھنگوی کی مولانا احمد لدھیانوی کی موجودگی میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت کے فیصلہ نے اس منصوبہ بندی کے تمام پس پردہ محرکات سے پردہ اٹھا دیا۔

علاوہ ازیں بعض حلقوں میں یہ باتیں بھی زیر گردش ہیں کہ گذشتہ عام انتخابات میں مولانا احمد لدھیانوی کی قومی اسمبلی اور اورنگزیب فاروقی کی سندھ اسمبلی کے الیکشن میں شکست کے بعد ایجنسیاں کالعدم جماعت کو اسمبلی میں داخل کرنے کی خواہاں تھیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ مسرور جھنگوی کی فتح کی صورت میں تکفیریت کو اسمبلی میں پہنچانے میں حکومت سمیت دیگر ریال خور عناصر بھی شامل تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت سرفہرست ہے۔ علاوہ ازیں تکفیریت کی یہ جیت بلاشبہ شیعہ قومی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں بڑی شیعہ جماعتوں مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماء کونسل نے وہاں ایک ہی امیداور یعنی آزاد ناصر انصاری کی سپورٹ کا اعلان کیا تھا، تاہم اس حوالے سے دونوں جماعتیں اکٹھی نظر نہیں آئیں، نہ ہی مرکزی قائدین کی جانب سے اس حلقہ کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ بندی نظر آئی، یعنی کوئی سیاسی ملاقاتیں اور انتخابی سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں ملیں، محض شیخ وقاص اکرم کے ڈرائنگ روم میں سیاسی میدان سجایا گیا۔

اگر یہ دونوں بڑی شیعہ جماعتیں باہمی ہم آہنگی کیساتھ عملی طور پر میدان میں اترتیں، شیعہ ووٹ کو منظم کرکے ایک طرف لایا جاتا، اہلسنت (بریلوی) اور معتدل قوتوں کیساتھ ملکر حکمت عملی طے کی جاتی، باقاعدہ انتخابی میٹنگز اور جلسے منعقد کئے جاتے، یعنی مضبوط امیدوار پر اتفاق رائے کرکے اس کی فتح میں عملی طور پر کردار ادا کیا جاتا تو نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ مسرور جھنگوی کی جیت سے پاکستان میں موجودہ شیعہ قائدین کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا اور آئندہ ایسے کسی بھی مرحلہ کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا، کیونکہ پاکستان میں تکفیریت کو منظم کرنے کیلئے کئی دماغ ایک بار پھر اکٹھے ہو رہے ہیں اور اس پر کافی پیسہ بھی خرچ کیا جا رہا ہے۔ پی پی 78 الیکشن کا نتیجہ پاکستان میں شیعہ عوام کیلئ
ے کوئی نیک شگون ہرگز نہیں، اس انتخاب کے نتائج پر پاکستان کا محب وطن طبقہ بالخصوص شیعہ شہری شدید پریشانی میں مبتلا ہے، تاہم مستقبل میں ایسی کسی بھی سازش کا مقابلہ کرنے کیلئے محب وطن پاکستانیوں کو منظم ہونا ہوگا۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button