مضامین

حماسی مقاومت، امریکی و اسرائیلی بقاء خطرے میں

فلسطین کے مظلوم عوام پر قابض اسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔ اسرائیل کے سرپرست اب بھی وہی بودا موقف اپنائے ہوئے ہیں، کہ ’’پہل حماس نے کی ہے۔ حملہ حماس کی جانب سے کیا گیا ہے۔‘‘ ان عقل کے اندھوں کا یہ اعلان اس بات کا اعتراف ہے کہ حماس نے شدید ترین ردعمل دیا ہے، جس سے یہ ابھی تک سنبھل نہیں پائے۔ اسرائیل باولا ہو کر اندھا دھند جارحیت کر رہا ہے اور اس میں اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔ قابض اسرائیل کے اعلیٰ فوجی افسران اور شہری حماس کی قید میں ہیں۔ حالیہ اسرائیلی حملوں میں عام شہریوں کی بجائے اسرائیلی فوجی ہی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔ حماس نے بھی اسرائیلی فوجیوں کو ہی آگے رکھا ہوا ہے، تاکہ حملہ ہو تو اموات اسرائیلی فوجیوں کی ہی ہوں، جبکہ اسرائیلی شہری حماس کی قید میں محفوظ ہیں۔ انہیں طویل سرنگوں میں رکھا گیا ہے۔

اسرائیل اس تصادم میں جنگی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے، فاسفورس بم اور ہسپتالوں کو نشانہ بنا کر اس نے عوامی حمایت بھی کھو دی ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ عیسائی اور یہودی عوام بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر رہے ہیں۔ حماس کے اس حملے نے عالمی رائے عامہ تبدیل کر دی ہے۔ بہت سے سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ حماس کو آخر اس حملے سے کیا فائدہ ہوا؟ کچھ مسلم حکمران تو اپنی روایتی جاہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس نے حماقت کی ہے، اتنی بڑی قوت کیساتھ ٹکر لے کر اپنا نقصان کیا ہے، لیکن عمیق جائزہ لیا جائے تو اس جنگ میں اب تک سب سے زیادہ نقصان اسرائیل کا ہوا ہے۔ غزہ میں بمباری سے سڑکچر تباہ ہوا ہے، آٹھ ہزار سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں، لیکن حماس نے اس حملے میں اسرائیل کو تاریخی شکست سے دوچار کیا ہے۔ اسرائیل ابھی تک اس حملے کی تاب نہیں لا سکا۔

حماس کی اس جرات نے مسلمانوں کے حوصلے اور وقار میں اضافہ کیا ہے۔ وہ مسلم حکمران جو اسرائیل کے جدید دفاعی نظام اور اسلحے سے مرعوب تھے، انہیں بھی خدا پر یقین آنے لگ گیا ہے۔ اس سے مجاہدین کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ عرب ملکوں میں شروع ہونیوالی ’’عرب بہار‘‘ کے بعد مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقاومت دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ اُمت مسلمہ اور مظلوموں کیلئے بہت بڑی ڈھارس بن گئی ہے۔ اس حملے نے مسلمانوں کی صفوں میں چھپے ہوئے بہت سے غداروں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ حماس نے اس حملے میں اسرائیلی فوج کی ’’غزہ ڈویژن‘‘ کا مکمل صفایا کر دیا ہے، اس کے زیادہ تر فوجی قتل ہوچکے ہیں، جبکہ بہت سے ابھی بھی حماس کی قید میں ہیں۔ اس حملے میں یوم کپور جنگ کے بعد اسرائیل کا سب سے زیادہ فوجی نقصان ہوا ہے، بہت سے ٹینک تباہ ہوئے ہیں، اسلحہ اور باردو حماس والے اٹھا کر لے آئے ہیں اور اسرائیل کی سب سے زیادہ اموات اس حملے میں ہوئی ہیں۔

حماس نے سیکڑوں اسرائیلی فوجی اغواء کرکے قید کئے ہوئے ہیں، جبکہ کچھ اسرائیلی شہری بھی حماس کی قید میں ہیں۔ حماس کی کامیاب حکمتِ عملی سے اسرائیلی قید میں موجود فلسطینیوں کو رہائی مل سکے گی۔ حماس نے ان کی رہائی کے بدلے میں اسرائیل کو یہی پیشکش کی ہے، کہ جتنے فلسطینی اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں، انہیں رہا کرے، تو جواب میں حماس بھی تمام اسرائیلی فوجیوں اور اسرائیلی شہریوں کو رہا کر دے گی۔ حماس کے اس حملے سے اسرائیل کے ’’ناقابل تسخیر‘‘ ہونے کا دعویٰ بھی ٹھس ہوگیا ہے۔ مجموعی طور پر اس سے صہیونیوں کے حوصلے ٹوٹے ہیں، ان کی خود اعتمادی کا جنازہ نکل گیا ہے۔ جس روز حماس نے حملہ کیا تھا، اس دن اور اس کے بعد اسرائیلی ایئرپورٹس پر اپنے اپنے ملک کی طرف بھاگتے صہیونی شہریوں کا منظر دیدنی تھا۔ حماس کی اس شاندار مقاومت کے بعد اب کوئی بھی صہیونی فلسطین کی زمین پر قبضہ کرکے سکون سے نہیں رہ سکے گا۔ کیونکہ حماس نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ فلسطین کو مکمل آزادی دلائی جائے گی اور یہاں قابض قوتوں کو ان کے آبائی ممالک میں بھیجا جائے گا۔

اس حملے سے جو صہیونی اسرائیل سے فرار ہوئے ہیں، وہ ایک طویل عرصے تک واپس نہیں آئیں گے بلکہ شائد وہ بالکل ہی واپس نہ آئیں، کیونکہ حماس نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر قابض ہونیوالوں کی نیندیں حرام کرتے رہیں گے۔ اس حملے سے اسرائیل کی سیاحت کی صنعت مکمل تباہ ہوگئی ہے، اور اب کوئی بھی سیاحت کیلئے اسرائیل کا رخ نہیں کرے گا۔ حماس کے اس حملے کے بعد اسرائیلی کرنسی ’’شیکل‘‘ بہت نیچے گر گئی ہے۔ اس سے اسرائیل کو معاشی طور پر بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور ممکن ہے کہ یہ کرنسی دوبارہ سنبھل ہی نہ پائے۔ اسرائیل کو غزہ پر حملے جاری رکھنے کیلئے بھاری سرمائے کی ضرورت ہوگی، اربوں روپے کا بجٹ درکار ہوگا۔ اس کیلئے کوئی بھی ملک اسرائیل کی مسلسل مدد جاری نہیں رکھ سکتا، بلکہ امریکہ جو اس کی سرپرستی میں پیش پیش ہے، وہ بھی معاشی بحران کا شکار ہے۔ وہ بھی زیادہ دیر اسرائیل کی سرپرستی نہیں کرسکے گا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سعودی عرب کیساتھ بات چیت کا سلسلہ چل رہا تھا، اسے بھی اس حملے کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔ دیگر عرب ممالک نے بھی اسرائیل کیساتھ بات چیت اور تعلقات کا باب بند کر دیا ہے۔ اس سے اسرائیل کی وہ خوش فہمی بھی ختم ہوگئی ہے کہ بڑے عرب ممالک اسرائیل کیساتھ ہیں۔ اب وہ عرب ملک جو پہلے اسرائیل کو تسلیم کرچکے تھے، انہوں نے بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی شروع کر دی ہے۔ حماس کے اس حملے نے اسرائیلی عوام اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ایک خوفناک قسم کا تناو پیدا کر دیا ہے۔ قیدیوں کی بازیابی میں ناکامی پر اسرائیلی شہری اپنی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حماس نے قیدی خواتین کا ویڈیو پیغام جاری کرکے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس تناو سے اسرائیل کے اندر مستقبل قریب میں بدامنی بڑھے گی اور فسادات کو فروغ ملے گا۔ لوگ اپنی حکومت کیخلاف نکلیں گے، مظاہروں میں شدت آئے گی، جو حکومت کنٹرول نہیں کر پائے گی، اس بدامنی سے اسرائیلی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ جس سے نیتن یاہو حکومت کا اقتدار میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔

اس صورتحال میں موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کا سیاسی کیرئر بھی ختم ہوسکتا ہے۔ حماس کے اس حملے کے بعد علاقائی قوتیں بھی فعال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ شمال میں لبنان کی حزب اللہ بھی اسرائیلی فوج کیساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے۔ عراق میں مسلح فورسز امریکی املاک کو نشانہ بنا رہی ہیں، یمن سے حوثی بھی بیلسٹک میزائل داغ رہے ہیں۔ اس سے اسرائیل چومُکھی لڑائی میں پھنس گیا ہے۔ اس سے اسرائیل کیلئے اتنے محاذ سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ حماس کی اس مقاومت سے مغربی مفادات بھی خاک میں مل رہے ہیں۔ اسرائیلی کی جگ ہنسائی الگ ہو رہی ہے اور اس کیساتھ ساتھ خطے میں امریکی موجودگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ جب دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ اسرائیل کا دفاعی نظام مجاہدین کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے تو امریکی دفاعی سسٹم تو ’’تارِعنکبوت‘‘ ثابت ہوگا۔ اس پر اب امریکی بھی پریشان ہیں اور ان کے مشرق وسطیٰ میں مفادات اور امریکہ کا یہاں قیام بذاتِ خود داو پر لگ چکا ہے۔
تحریر: تصور حسین شہزاد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button