مضامینہفتہ کی اہم خبریں

کشمیر کا سودا ہوچکا ہے؟؟

امریکہ کشمیر کی آزادی چاہتا ہے، مگر وہ اس علاقے کو پاکستان کو نہیں دینا چاہتا

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)

تحریر: تصور حسین شہزاد

جہاں عمران خان کشمیر کاز کیلئے سرگرم ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر ایک الگ انداز میں بحث چل رہی ہے۔ کچھ لوگوں کو خیال ہے کہ عمران خان کشمیر کا سودا کرچکے ہیں۔ اس سودے کو موضوع سخن بنا کر وزیراعظم عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کہا جارہا ہے کہ امریکہ کشمیر کی آزادی چاہتا ہے، مگر وہ اس علاقے کو پاکستان کو نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ کی روزِ اول سے یہ کوشش رہی ہے کہ کشمیر کو ایک آزاد، تیسرا ملک بنا دیا جائے۔ جس میں مقبوضہ جموں اینڈ کشمیر، لداخ، گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے شامل ہوں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ علاقہ ایک نئی آزاد ریاست بنے۔ اس کا ابتدائی کنٹرول امریکہ اور برطانیہ کے پاس آئے اور نئی حکومت کے قیام اور انتخابات تک امریکہ و برطانیہ ہی نئے ملک کا نظام چلائیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس منصوبے کیلئے امریکہ انڈیا اور پاکستان کو یہ "کنوینس” کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑائی کا موجب کشمیر ہی ہے، لہذا دونوں ملک اس سے جان چھڑائیں، اسے آزاد کر دیں اور خود پُرامن رہ کر اپنی اپنی معاشی ترقی پر توجہ دیں، غربت، بے روزگاری کیخلاف لڑیں۔

پاکستان میں موجودہ حکومت کے مخالفین مسلسل اس پروپیگنڈے کو ہوا دے رہے ہیں کہ عمران خان نے دورہ امریکہ کے موقع پر امریکہ کے اس ناپاک منصوبے کی تسلیم کر لیا ہے۔کہا جارہا ہےکہ اب کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کے کیساتھ نہیں ملے گا بلکہ دنیا کے نقشے پر تین ملکوں کی صورت میں نمایاں ہوگا، ایک ملک انڈیا، دوسرا پاکستان اور تیسرا کشمیر ہوگا۔ مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان خفیہ بات چیت کافی عرصے سے چل رہی تھی اور مودی بھی اس پر رضامند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے اسے انڈیا میں ضم کرلیا ہے۔ مگر کہتے ہیں کہ "دل ہے کہ مانتا نہیں” کے مصداق ایسا لگ نہیں رہا۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستانی اپوزیشن "بغضِ عمران” میں ایسا پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔

اس صورتحال میں کشمیری عوام بھی اس حل سے پریشان ہیں۔ میری اس حوالے سے ایک کشمیر دوست سے بات بھی ہوئی ہے، وہ صحافی ہیں اور مقبوضہ وادی سے نکل کر ایسی جگہ پہنچے ہیں، جہاں انٹرنیٹ کی تھوڑی بہت سروس موجود ہیں۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ 95 فیصد کشمیری پاکستان کیساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں، مگر وہ امریکی ثالثی سے پریشان ہیں کہ کہیں عمران خان ٹرمپ کو "او کے” نہ کہہ دے اور کشمیر تیسرا ملک بن جائے، کیونکہ امریکہ کی جانب سے اس تجویز کا مقصد کشمیریوں کی آزادی نہیں بلکہ اس آزادی کی آڑ میں امریکہ چین کی گردن دبوچنا چاہتا ہے۔

امریکہ کی خواہش ہے کہ مذکورہ بالا پلان کے تحت وہ کشمیر کو آزاد کروا کر وہاں اپنا اڈہ بنا لے، یوں چین اس کی گرفت میں آجائے گا۔ مگر پاکستان کبھی بھی اس حل کو تسلیم نہیں کرے گا،کیونکہ پاکستان کسی بھی قیمت پر چین کو ناراض نہیں کرسکتا۔ چین سے ناراضی کا مطلب سی پیک کی بساط لپیٹ لی جائے گی۔ اس کے علاوہ چین کا پاکستانی معیشت کے استحکام میں نمایاں کردار ہے۔ چین کو ناراض کیا تو ہم اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی ماریں گے۔ یہ پاک فوج بھی نہیں چاہے گی کہ ایسا کوئی منصوبہ سامنے آئے، کیونکہ سی پیک کی سکیورٹی اور اسے کامیاب بنانے کی ذمہ داری پاک فوج کے پاس ہے۔

اس حوالے سے حکومت اور فوج (ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر خارجہ) دونوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے میڈیا پر واضح بیان دیں، دونوں ذمہ دار عوام میں پھیلنے والے اسے خدشہ کو دُور کریں۔ کیونکہ اگر یہ تحفظات معاشرے میں سرایت کر گئے تو عوامی رائے تبدیل ہو جائے گی۔ اس سے جہاں کشمیری ناراض ہوں گے، وہیں پاکستان کے اندر سے بھی حکومت کیلئے منفی ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ اس لئے حکومتی ذمہ داران اس معاملے کی حساس نوعیت کا ادراک کرتے ہوئے قوم کی رہنمائی کریں۔ قوم کو بتایا جائے کہ کشمیر کا سودا ہوا ہے یا نہیں اور اگر ہوا ہے تو کن شرائط پر اور نہیں ہوا تو یہ پروپیگنڈہ کیوں؟ اس کا سدباب لازم ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button