مضامین

میڈیا ، ہم اور ہماری اقدار

تحریر: سید علی حسن

میری یہ تحریر کسی کے حق میں نہیں اور نہ ہی کسی کے خلاف ہے اگر کسی کو برا لگے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ ۱۹۹۹ میں پرویز مشرف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں میڈیا کا ایک نیا دور شروع ہو ا جس کو کچھ لوگ آزادئ اظہار بھی کہتے ہیں۔ گزشتہ ۱۰ سال کے دوران پاکستا ن میں بہت سارے چینل شروع ہوئے جن پر مختلف قسم کے پروگرام نشر ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ، یہاں اسلامی قواعد کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا ۔لیکن اگر پاکستان میں چلنے والے میڈیا چینلز پر ایک نظر ڈالی جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان چینلز پر کس قسم کا بے ہودہ مواد دکھایا جا رہا ہے اور اس نام نہاد اسلامی ملک میں بسنے والےمسلمان اسےاتنے شوق سے دیکھ رہے ہیں کہ ہر نئے دن کے ساتھ میڈیا چینلز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی اقدار کو اس طرح سے روند دیا گیا ہے کہ یہاں صیح اور غلط کا فرق ختم ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ دار یہا ں بسنے والے مسلمان ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب کبھی بھی کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اسے بدکاری اور بے ہودگی میں لگا اور اس قوم کی مذہبی اقدار کو اس طریقے سے ختم کردو کہ وہ قوم اپنی اقدار کو دوبارہ حاصل نہ کر سکے ۔ شاید آج پاکستانی قوم کے ساتھ یہی کھیل کھیلا جا رہا ہےکہ جہاں میڈیا کے ذریعے دوسرے مذاہب کی اقدار کو پروان چھڑہایا جا رہا ہے اور اسلامی اقدار کو ختم کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو برس سے رمضان المبارک کے با برکت مہینے میں رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر اسلامی اقدار کا جو جنازہ نکالا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ پاکستانی عوام اسے نہ صرف شوق سے دیکھتی ہے بلکہ اس میں شرکت کے لئے پاگل ہوئی رہتی ہے اور تو اور ہمارک ملک کے مولانا حضرات بھی اس میں شریک ہو کر اسے بڑھاوا دیتے ہیں ۔

رمضان ٹرانسمیشن کے دور ان بے ہودگی پر مبنی سوالات عوام سے کئے جاتے ہیں اور جواب غلط دینے پر ” مسلمانوں تکاّ لگاؤ ” جیسے الفاظ استعمال کر کے مسلمانوں کی توہین کی جاتی ہے۔ اس توہین پر نہ تو مسلمانوں کو اور نہ ہی اسلام کے نام پر پیسا کھانے والے مولانا حضرات کو کوئی فرق پڑتا ہے ، ان کی بلا سے انہیں تو شو میں جانے کے پیسے جو مل رہے ہیں ۔ دو روز قبل ایک چینل نے ایک بے ہودہ قسم کی عورت پر وہ قوالی نشر کی کہ جو اہلبیت ؑ کی پاک ہستیوں پر ہے جس سے توہیں اہلبیتؑ ہوئی اور اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد سے پاکستان بھر میں اُس چینل کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ، جبکہ دوسری جانب نام نہاد ملاّ کہیں اس چینل سے پیسے کھا کر تو کہیں اس چینل کے مخالفین سے پیسے کھا کر فتوے دے رہے ہیں ۔ اب اگر بات پاکستانی عوام کی کریں تو وہ کون سا دودھ کی دھلی ہے خود ان کے گھر کی شادیوں میں جو بے ہودگی ہوتی ہے وہ کم ہے کیا۔خواتین اور لڑکیاں نامحرم مرد حضرات کے سامنے ناچ گانے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں جو کہ سراسر اسلامی اقدار کے خلاف ہے ۔ کیا وہ بے ہودگی جو انہی منقبت اور قوالیوں کو چلا کر ہمارے گھروں میں ہوتی ہے جائز ہے ، کیا اس وقت کہ جب ہمارے گھروں میں بے غیرتی ہوتی توہیں اہلبیتؑ نہیں ہوتی ؟ ۔ غور کریں اس پر کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ میڈیا کا کردار یقیناََ شرم ناک حد تک خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرنا بھی ضروری ہے مگر اس سے پہلے ہمیں اپنی اقدار کو درست سمت پر لانا ہو گا ۔ اپنے گھر کی تقریبات کو اس طرح بنانا ہوگا کہ جیسا اہلبیت ؑ ہم سے چاہتے ہیں ، شادیوں میں گانے کے بجائے منقبت چلانے سے فر ق تب تک نہیں پڑے گا جب تک ہم اپنے کردار کو درست نہیں کر لیں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button