مضامین

بتاؤ، اب میں کس کو کھاؤں؟

shia nasal kashiبرصغیر میں مختلف مذاہب اور فرقوں میں مکالمے اور بحث کی روایت بہت پرانی ہے، بلکہ یوں کہئے کہ بہت پرانی تھی۔ آج یہ تصور کرنا بھی مشکل لگتا ہے، لیکن پاکستان میں ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ایک فرقے کے عالم دوسرے فرقے پر تنقید کرنا چاہتے تھے تو اس کام کے لیے ایک کتاب لکھتے تھے اور اس پر اپنا نام بھی چھپواتے تھے، آج کل کی طرح دو دو صفحوں کے بے نام کتابچے نہیں، جن پر موجودہ دشمن اور متوقع مقتول کو کتابچے سے ملتے جلتے لفظ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ وہ وقت جب شیعہ، سنّی، بوہری، اسماعیلی، یہاں تک کے قادیانی بھی مل جل کر رہا کرتے تھے "دور جاہلیت” کہلاتا ہے۔

تب جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں بھی قادیانیوں کی کم سے کم دوسری نسل کو مرتد قرار دینے سے ہچکچاتی تھیں اور جنہیں مرتد قرار دیتی تھیں ان کے قتل کا ارجنٹ فتویٰ جاری کرنے کے بجائے انہیں تبلیغ کرنے اور اتمام حجت جیسے بےکار جھنجٹوں میں پڑی رہتی تھیں۔ خیر ہمیں ان سب فضولیات کو ایمان کی کمزوری ہی سمجھنا چاہئے، ویسے بھی تیسری سپر پاور ہمارے ہمسائے میں شکست کھا رہی ہے اور ایسے وقتوں میں یہ باتیں فیشن میں نہیں رہتیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کا قبلہ تو درست ہوا ہی ہوا، مذہبی بحث بھی پھیلتے، بڑھتے، تکرار سے ہوتی تو تکار اور وہاں سے بھی بڑھ کر سر پھٹول سے گزرتی ہوئی اپنی منزل مقصود یعنی قتل وغارت تک پہنچ گئی۔ تقریر وں کی جگہ نعروں نے لے لی، اعتراض مغلظات میں بدل گئے، دلیل کو فتووں نے دیس نکالا دے دیا اور کتابیں سکڑ کر دو صفحوں کا پمفلٹ بن گئیں۔ مکالمہ ختم ہونے کے بعد ویسے بھی دلیل کے ضرورت نہیں تھی، فیصلہ ہوچکا تھا صرف اعلان باقی تھا، جس کے لیے دو صفحے کافی تھے۔ ایک پر کفر کا فتویٰ اور دوسرے پر جنگ کا اعلان۔

قادیانیوں کے پارلیمنٹ کے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے کے بعد تکفیر کا "جن” بوتل سے باہر آچکا تھا اور مجھے کام بتاؤ، میں کیا کروں، میں کس کو کھاؤں، کا نعرہ بڑے زور و شور سے لگا رہا تھا۔ قادیانیوں کے لیے تو نوبت ان کی عبادت گاہوں (جو مسجد نہیں ہوتیں) اور قبروں (جن کا احترام قطعی غیر ضروری ہے) سے سرٹیفائیڈ مسلمانوں کی کاپی رائٹ شدہ عبارات مٹانے تک پہنچ چکی تھی، لیکن جن کا پیٹ ابھی خالی تھا۔ ایسے حالات میں "جن” عام طور پر بوتل کا کاک ہٹانے والے کے ساتھ کچھ زیادہ اچھا سلوک نہیں کرتے، اس لیے مذہبی گروہوں نے اغیار کی ایک سازش کو ٹھکانے لگانے کے بعد فوری طور پر باقی ماندہ مسلمانوں پر نظر دوڑائی تو حسب توقع ایک اور سازش کو اپنے ناکام کئے جانے کا منتظر پایا۔ اس بار پرچی شیعہ حضرات کے نام نکلی۔
 
"جن” کی بھوک اتنے زوروں پر تھی کہ مذہب اور ریاست کی یکجائی کے علم بردار اہلِ مذہب نے اس بار پارلیمنٹ سے فتویٰ لینا بھی مناسب نہیں سمجھا اور افغان جنگ کے عطا کردہ صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے خود ہی ثواب کمانا شروع کر دیا۔ نو گیارہ کے بعد دنیا بھر سے نو دو گیارہ ہو کر آنے والے مجاہدوں سے ان شیعہ کش جنگجوؤں کی صاحب سلامت ہوئی تو اس سے فتووں کو تقویت ملی اور مجاہدوں کو تربیت۔

اگر آپ پوچھیں کہ ریاست اس ساری کہانی کے دوران طلسماتی کہانیوں کی شہزادی کی طرح سوئی ہوئی تھی، تو میں کہوں گا کہ نہیں۔ اگر آپ پھر بھی سوال کرنے سے باز نہ آئیں اور یہ پوچھیں کہ پھر وہ کیا کر رہی تھی تو میں ہنس دوں گا اور آپ کو ٹالنے کے لئے یہ بتانا شروع کر دوں گا کہ کسی زمانے میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک بھی رفع یدین پر آپس میں لڑا کرتے تھے۔ سینکڑوں لوگوں کی موت اور کئی دہائیوں کی غارت گری کے بعد ایک کیتھولک پادری نے یہ اعلان کیا کہ پروٹسٹنٹ فرقے کے پیروکاروں کو مارنا نہیں چاہئے، کیونکہ یہ تعداد میں اتنے ہیں کہ انہیں مار کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اس کیتھولک پادری کی سمجھ میں یہ اخلاقی نکتہ بہت عرصے بعد جا کر آیا تھا۔

اس لئے مجھے مولانا لدھیانوی یا ملک اسحاق سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ ہم یوں بھی مردہ شماری میں مصروف ہیں، مردم شماری ابھی نہیں کروا سکتے، ورنہ پتہ چلایا جاسکتا تھا کہ شیعہ کتنے ہیں اور ان حضرات پر یہ طریقہ کارگر ہوگا بھی یا نہیں۔ مار کھانے کی کافی پریکٹس ہونے کے وجہ سے مجھے شیعوں کی تو زیادہ فکر نہیں ہے، لیکن یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ اگر شیعوں کی تکفیر اور معاشرے کی ان سے تطہیر کے بعد بھی کہانی کا "جن” کیا کروں، کس کو کھاؤں، پکارتا رہا تو کیا ہوگا۔ ایوان صدر میں نہیں، قتل گاہ میں اگلی باری کس کی ہوگی۔
"روزنامہ ڈان”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button