معذور افراد کے بحالی مراکز بھی فرقہ واریت کا شکار، شیعہ قائدین کی توجہ درکار
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) معذور افراد کے بحالی مراکز بھی فرقہ واریت کا شکارہونے لگے، اس مسئلہ کی جانب شیعہ قائدین کی توجہ درکارہے۔
رپورٹ : ایس اے زیدی
خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا اور اسے دنیا بھر کی نعمتیں عطا کیں، ان نعمتوں میں انسانی جسم اور اس کا ایک، ایک عضو بھی شامل ہے، تاہم اگر اس جسم کا کوئی ایک بھی عضو یا حصہ ناکارہ ہو جائے یا پیدائشی طور پر انسان کسی بھی جسمانی نعمت سے محروم ہو تو اسے زندگی گزارے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دنیا میں ایسے افراد کو ’’خصوصی افراد‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، پاکستان میں ایسے افراد کی بحالی، علاج یا ان کی تربیت کے کئی ادارے قائم ہیں، لیکن افسوس کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح اس معاملہ پر بھی حکومت کی عدم توجہی رہی ہے۔ بعض فلاحی تنظیموں اور نجی اداروں کی جانب سے بھی کئی ادارے قائم کئے گئے ہیں اور اس طرح حکومتی سطح پر بھی سنٹرز فعال ہیں، تاہم ان اداروں میں معذور افراد کو درپیش دیگر مشکلات کیساتھ ساتھ فرقہ واریت کی شکل میں ایک ’’نئی مشکل‘‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اگر یوں کہا جائے کہ فرقہ واریت کا ناسور خاص انسانیت کے مسئلہ سے درپیش شعبہ میں بھی پہنچ گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
بصارت سے محروم کراچی سے تعلق رکھنے والے مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے رہنماء مولانا سید علی انور جعفری نے ’’خبررساں ادارے‘‘ کو بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ڈس ایبیل پرسز (معذور افراد) کی بحالی کے کئی مراکز موجود ہیں، اگر نابینا افراد کی بات کی جائے تو ساڑھے چھ سو سے زائد مراکز بحالی کیلئے کام کر رہے ہیں، ان میں سے 600 کے قریب مراکز مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والی انتظامیہ کے زیر اثر ہیں، لہذا ان مراکز میں اسی خاص مسلک کی تعلیمات کی ہی تبلیغ و ترویج کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے اہل تشیع اور اہلسنت (بریلوی) مکاتب فکر کے پیروکار معذور افراد کو ان کے اپنے عقائد کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مولانا علی انور جعفری نے مزید بتایا کہ چونکہ بصارت سے محروم مرد و خواتین درس سمع (سن کر) کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے ہیں، لہذا پاکستان میں وہ سہولیات میسر نہیں ہیں، جو ہونی چاہئیں۔ اس وقت نابینا افراد کی سب سے زیادہ تعداد گلگت بلتستان میں ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں مجلس وحدت مسلمین نےمولانا مزمل حسین کو پاراچنارکے تحصیل میئر کا امیدوار نامزد کردیا
مولانا علی انور جعفری کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کاشانہ بصیرت کے نام سے ہم نے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے، جس میں پورے ملک سے دو ہزار کے قریب اراکین ہیں، اس کی کمیٹی نے کام کیا اور ملک گیر سطح پر ڈیٹا جمع کیا گیا، اب ہم ضرورت محسوس کر رہے ہیں کہ چونکہ اس انسانیت سے جڑے معاملہ میں بھی فرقہ واریت آرہی ہے اور ایک خاص مسلک کی اجارہ داری قائم کی جا رہی ہے، لہذا مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے معذور اور نابینا افراد کیلئے علیحدہ ادارہ قائم کیا جائے۔ یہ صورتحال اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ اس انسانیت کے معاملہ کو بھی فرقہ واریت کی نذر کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیعہ معذور افراد کیلئے ادارے کے قیام کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ وہاں ان کی دنیاوی اور دینی، دونوں ضروریات کو پورا کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اہلسنت (بریلوی) برادران نے بھی اس صورتحال میں اپنے مخصوص مراکز قائم کر لئے ہیں، دعوت اسلامی کے زیرانتظام کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد اور چلاس (جی بی) میں معذور افراد کی بحالی کے مراکز قائم کئے جاچکے ہیں، جن میں ان کے لوگ استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ شیعہ قائدین اور مخیر حضرات بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور ملک میں موجود شیعہ معذور افراد کیلئے سینٹرز قائم کئے جائیں، اس حوالے سے ہماری ٹیم تیکنیکی معاونت کیلئے حاضر ہے، تاہم ہمارے پاس وسائل موجود نہیں ہیں۔ ملک میں سہولیات نہ ہونے اور حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے معذور اور نابینا افراد کی مشکلات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کی طرف سے اس جانب اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
مولانا علی انور جعفری کی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ فرقہ واریت کے اس ناسور نے ملک کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، اب جہاں شیعہ قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معذور افراد کیساتھ ہونے والی اس سلوک پر کردار ادا کریں، وہیں حکومت کیلئے بھی یہ لمحہ فکر ہے کہ کیسے ایک مخصوص مسلک غیر فطری طور پر اداروں پر قابض ہو رہا ہے، اس حوالے سے حکومت کو توجہ دینے اور فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ کم از کم انسانیت سے جڑے معاملات کو تو فرقہ واریت سے پاک رکھا جاسکے۔