مضامینہفتہ کی اہم خبریں

اسلامی دنیا میں مذہبی فتنہ انگیزی میں MI6کا کردار (حصہ اول)

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)

تحریر: محمد محمدی

اسلامی دنیا میں جعلی مذہبی فرقوں کی تشکیل اور مختلف ادیان میں تقسیم در تقسیم برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی 6 کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ وہابیت اور بہائیت جیسے فرقوں کی تشکیل کے ذریعے برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی نے عالم اسلام میں اتحاد اور وحدت کی فضا توڑنے کی کوشش کی تھی۔ اٹھارہویں صدی میں معروف برطانوی جاسوس ہیمفر کا نام جانا پہچانا ہے۔ ہیمفر اور اس کے دیگر 8 جاسوسوں کو برطانوی حکومت نے اسلامی ممالک میں جاسوسی کا کام سونپ رکھا تھا۔ ہیمفر ترکی گیا اور "محمد” کے نام سے اسلامی علوم اور قرآن کی تعلیم میں مصروف ہو گیا۔ اس کے بعد وہ عراق گیا اور محمد بن عبدالوہاب سے ملا۔ اسے محمد بن عبدالوہاب مناسب شخص محسوس ہوا لہذا اس سے دوستی بڑھا کر مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے اور سلطنت عثمانیہ کی جڑیں کمزور کرنے کیلئے سرگرم عمل ہو گیا۔ برطانوی جاسوسی ادارے محمد بن عبدالوہاب پر مسلط ہو گئے اور اس نے آخرکار 1143 ہجری قمری میں "وہابیت” نام کا ایک نیا فرقہ تشکیل دے دیا۔ محمد بن عبدالوہاب کے نظریات اسلامی تعلیمات سے کھلی مخالفت پر مبنی تھے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس نے برطانوی جاسوسوں کی ایماء پر خود کو پیغمبر بھی کہلوانا شروع کر دیا۔

اسلامی دنیا میں برطانوی استعمار کی جانب سے مذہبی فتنہ انگیزی کی ایک اور مثال اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں بابیت اور بہائیت نامی جعلی فرقوں کی تشکیل ہے۔ ان فرقوں میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو تفکر و تدبر کی خصوصیت سے عاری تھے لیکن عبادت اور گوشہ نشینی میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ ان فرقوں کے بانی بھی برطانوی سامراج کے ایجنٹوں کی ایماء پر نبوت کے دعوے کرنے لگے۔ بابیت فرقے کا بانی سید محمد علی شیرازی تھا جو محمد علی باب کے نام سے مشہور تھا۔ وہ طولانی عبادت اور مراقبوں کیلئے مشہور تھا۔ کئی سال کی عبادت کے بعد اچانک اس نے سب کچھ چھوڑ کر اقتصادی فعالیت اختیار کر لی اور ایران کے جنوبی شہر بوشہر چلا گیا۔ اس شہر میں وہ برطانوی اور یہودی تاجروں سے مل کر کام کرتا رہا۔ 1260 ہجری قمری میں اس نے اچانک بابیت (امام زمانہ عج سے رابطے کا وسیلہ) کا دعوی کر دیا۔ برطانوی جاسوسی ادارے نے مختصر مدت میں اس کا چرچہ کر دیا اور بڑی تعداد میں پیرو فراہم کر دیے۔ جب اس نے بابیت کا دعوی کیا تو اس کی عمر صرف 24 سال تھی۔ اس کے بعد اس نے مہدویت کا بھی دعوی کر دیا۔

برطانوی تشیع امریکی اسلام کا ایک شعبہ ہے جو جہاد اور شہادت سے گریزاں ہے۔ اس قسم کی تشیع عالمی طاغوتی قوتوں کیلئے بالکل بے ضرر ہے۔ برطانوی تشیع صرف عزاداری تک محدود ہے اور وقت کے یزیدوں کے خلاف میدان عمل میں آنے سے کتراتی ہے۔ برطانوی تشیع کا مقصد دین کی اصلاح نہیں بلکہ تفرقہ اور اختلافات پر زور دیتی ہے، تکفیر کرتی ہے، دیگر مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرتی ہے اور گالی گلوچ دیتی ہے۔ برطانوی تشیع ایک ذیلی دشمن نہیں بلکہ اسلام کے اصلی دشمنوں کی سازش ہے۔ برطانوی تشیع شیعہ کو نامعقول اور نفرت آمیز ظاہر کرتی ہے۔ جبکہ ائمہ معصومین علیہم السلام عقلانیت اور عدالت کے مظہر تھے۔ شیعہ کی تلوار ہمیشہ کفار اور اسلام دشمن عناصر کے خلاف نیام سے باہر آتی تھی جبکہ برطانوی شیعہ نے اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ہی تلوار نکال رکھی ہے اور کفار اور استعماری قوتوں کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔

برطانیہ کی "اختلاف ڈالو اور حکومت کرو” پر مبنی سیاست اعتقادات میں اختلافات کی بنیاد پر جعلی فرقوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ تشیع کو کمزور کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ برطانیہ ملت تشیع کو کمزور کرنے کا کام براہ راست انجام نہیں دے رہا بلکہ ایسے شیعوں کے ذریعے انجام دے رہا ہے جو اپنی جہالت کی وجہ سے ایم آئی 6 کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ لندن میں مرجعیت پالنا، شدت پسند شیعوں کو ترویج کا کھلا موقع فراہم کرنا، برطانیہ میں شدت پسند سوچ کے حامل شیعہ افراد کے ٹی وی چینل لانچ کرنا ایسے اقدامات کی کچھ مثالیں ہیں۔ عالم تشیع میں برطانیہ نے اپنا اثرورسوخ اس وقت بڑھانا شروع کیا جب میرزای شیرازی نے برطانوی استعمار کے خلاف تنباکو کی حرمت کا اپنا تاریخی فتوی جاری کیا۔ اس کے بعد شیعہ مراجع ہر موقع پر جہاد کا فتوی صادر کرتے رہے۔ برطانوی حکومت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے بعض مراجع کو خریدا اور یورپ میں انہیں مواقع فراہم کئے۔ ان مراجع نے ایسے علماء پروان چڑھائے جو قم اور نجف میں علماء کے برعکس استعماری قوتوں کے ہم پیالہ تھے۔ انہی اقدامات کے نتیجے میں "لندنی علماء” معرض وجود میں آئے۔
۔۔۔۔۔ جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button