مضامین
علامہ شہنشاہ نقوی سمیت شیعہ علماء کونسل کے دیگر اکابرین کو مل بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیں، علامہ اصغر عسکری
علامہ شہنشاہ نقوی کی جانب سے دو بڑی شیعہ شخصیات علامہ سید ساجد نقوی اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے مل بیٹھنے کے عندیے کے بعد علامہ محمد اصغر عسکری نے اسلام ٹائمز کے ساتھ گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
علامہ اصغر عسکری:پہلے تو میں شکریہ ادا کرتا ہوں اسلام ٹائمز کا، جس نے ہمارا موقف سنا، ہم اتحاد بین المومنین کو اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہیں۔ میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ مجلس وحدت مسلمین ہی وہ پہلی جماعت ہے، جس نے اپنے دو سالہ تنظیمی دور میں اتحاد بین المومنین کے لیے ہمیشہ پہل کی ہے۔ جس کے لیے ہمارے اکابرین نے دوسری طرف کافی دفعہ روابط کرنے کی کوشس کی۔ بلکہ میری اطلاعات کے مطابق 9 دفعہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی راہنماؤں نے مختلف شخصیات کے ذریعے سے علامہ ساجد نقوی صاحب کو یہ پیغام بھیجوایا کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں، تاکہ ملت کے جو مسائل ہیں ان کے حل کے لیے مل بیٹھ کر کچھ لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ خود علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کوئٹہ میں پچھلے سال جولائی کے پروگرام میں موجود تھے، ادھر ہی علامہ ساجد نقوی صاحب بھی موجود تھے، پروگرام کے بعد علامہ راجہ صاحب، علامہ ساجد نقوی صاحب سے خود ملے اور مل کر علامہ صاحب سے کہا کے آپ جب اسلام آباد واپس تشریف لائیں تو بتائیے گا، ہم آپ کے پاس آ جائیں گے، تو علامہ صاحب نے جواب دیا کہ ابھی میں کراچی جا رہا ہوں، واپس آ کر آپ کو بتاوں گا، تو پھر مل لیں گے۔
یعنی یہ کوئی ایک دفعہ نہی ہوا، بلکہ ایک ملاقات میں، میں خود بھی موجود تھا، علامہ امین شہیدی صاحب کے ساتھ انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ کے موقع پر جمہوری اسلامی ایران کے سفارتخانے میں پروگرام میں آغا امین شہیدی نے علامہ ساجد نقوی صاحب سے کہا کے آپ ہمیں ٹائم دیں، ہم آپ کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملت تشیع کے درمیان اب تک جتنی مرتبہ بھی وحدت کی بات ہوئی ہے، تو سب سے پہلے مجلسِ وحدت مسلمین نے ہی قدم بڑھایا ہے۔ میں یہ بات آن دی ریکارڈ کر رہا ہوں کہ دوسری جانب سے ہمیں مثبت جواب نہیں ملا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم اتنی تنگ نظری کا شکار ہو گئے ہیں، اپنا جو دائرہ کار بنایا ہوا ہے، اس سے باہر نکلنے کی کوشس بھی نہیں کر رہے۔
شہنشاہ نقوی صاحب نے جو یہ بات کی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی شخصیت ہے تو وہ صرف علامہ ساجد نقوی صاحب ہی ہیں، باقی ان کے سامنے بچے نظر آتے ہیں، تو میں ان سے یہی کہوں گا کے ہر تنظیم کا جو سربراہ ہوتا ہے وہ اس تنظیم کے لیے ایک اہم شخصیت ہوتا ہے، حتٰی کہ سید حامد علی موسوی صاحب کی تنظیم تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے جو لوگ ہیں، موسوی صاحب ان کے لیے ایک محبوب شخصیت ہیں اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیے، اسی طرح علامہ ساجد نقوی اسلامی تحریک کے سربراہ ہیں، انکی تنظیم کے لوگوں کے لیے علامہ صاحب ایک اہم شخصیت ہیں، تو اسی طرح مجلس وحدت مسلمین کے لوگ علامہ راجہ ناصر عباس کو ہی چاہیں گے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں شخصیات تو بہت ساری ہیں، یعنی ہر تنظیم کا جو سربراہ ہے وہ شخصیت ہے۔ ایک تو یہاں پاکستان میں کام کرنے پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں شخص ہو گا تو کام ہو گا، فلاں نہیں ہو گا تو کام نہیں ہو گا، یہ غلط ہے۔ دوسرے لفظوں میں قیادتوں کی کمی نہیں، کمی کس چیز کی ہے؟ کمی کام کرنے کی ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے اس وقت اپنا جو کردار ملک میں ہونا چاہیے تھا وہ ہم پیش نہیں کر سکے۔ قیادتیں موجود تھی مسائل حل نہیں ہوئے، مثلا ڈی آئی خاں، کراچی اور پارہ چنار کا مسئلہ سب قیادتیں موجود تھیں، کچھ نہیں ہوا، لیکن جب کام ہوا تو سب نے دیکھا۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ ڈی آئی خان میں ان نازک حالات میں جب ٹارگٹ کلنگ ہو رہی تھی تو علامہ صاحب نے اُدھر جا کر مذاکرات کر کے حالات کو کنٹرول کیا تھا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ڈی آئی خاں میں اس وقت رہا ہوں، جب 24، 24 جنازے اُٹھائے جا رہے تھے تو میں اکیلا مولوی ادھر موجود تھا اور لوگ ترس رہے تھے کے کوئی شخصیت ان کے پاس آئے، لیکن کوئی ادھر نہیں گیا۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ڈی آئی خاں کے معاملات کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ مجلس وحدت مسلمین نے ان دنوں میں اُدھر شہداء کانفرنس کی جب ادھر کے جوان کانفرنس کے پوسٹر لگانے کے لیے تیار نہیں تھے تو ہم اسلام آباد کے جوانو ں کو ڈی آئی خاں میں لے گئے تھے، تو پھر اُدھر کے جوانوں کو حوصلہ ہوا اور وہ کانفرنس میں شریک ہوئے اور جو وہ خوف کی فضاء تھی وہ ختم ہوئی۔
اس بات کی گواہی ڈیرہ کے لوگ بھی دیں گے، اور اگر ڈی آئی خان کے معاملات فضل الرحمن سے مذاکرات سے حل ہوتے ہیں تو کوئٹہ میں فضل الرحمن کا اثر و رسوخ زیادہ ہے، ادھر کیوں نہیں ٹارگٹ کلنگ رکتی؟ وہاں کیوں مذاکرات نہیں ہوتے۔؟ ہو سکتا ہے مذاکرات ہوئے ہوں، لیکن اس میں بہت سارے لوگوں کی قربانیاں ہیں۔ تو میں اسی طرف آؤں گا اس وقت قوم کو ضرورت ہے اتحاد کی اور کھلے دل سے ایک دوسرے کو قبول کرنے کی۔ ہماری مشکل یہ ہے کے ہم شخصیات میں الجھے ہوئے ہیں۔ میں کسی خاص شخصیت کی طرف اشارہ نہیں کر رہا، ہمارے سیاسی میدان میں ہی دیکھ لیں، لوگوں
نے چند شخصیات کا انتخاب کیا ہوا ہے اور وہ اس شخصیت کو اٹھا کر گھوم رہے ہیں، یہی بیماری ہماری مذہبی جماعتوں میں آ گئی ہے۔ دیکھیں شخصیت پرستی نہیں ہونی چاہیے بلکہ دین پرستی ہونی چاہیے۔ ہم اسلام ٹائمز کے توسط سے سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں مل کر بیٹھتے ہیں، کسی جگہ پر، اگر کوئی بانی نہیں بنتا تو ہم حاضر ہیں کہ مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق بنا لیتے ہیں اور پھر اس پر کام کرتے ہیں۔
نے چند شخصیات کا انتخاب کیا ہوا ہے اور وہ اس شخصیت کو اٹھا کر گھوم رہے ہیں، یہی بیماری ہماری مذہبی جماعتوں میں آ گئی ہے۔ دیکھیں شخصیت پرستی نہیں ہونی چاہیے بلکہ دین پرستی ہونی چاہیے۔ ہم اسلام ٹائمز کے توسط سے سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں مل کر بیٹھتے ہیں، کسی جگہ پر، اگر کوئی بانی نہیں بنتا تو ہم حاضر ہیں کہ مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق بنا لیتے ہیں اور پھر اس پر کام کرتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:اب تک مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے اتحاد بین المسلمین اور بین المومنین کے لیے کون کون سے عملی اقدامات کیے گئے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری:بڑا اہم نقطہ ہے، جس کی جانب آپ نے توجہ دلائی، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ شعبان میں مرکزی دفتر میں پنڈی اسلام آباد کے تمام علماء، خطباء و امام جمعہ کو بلا کر ایک پروگرام کیا گیا تھا، جس سے ایک اچھی فضاء قائم ہوئی تھی اور یہ پروگرام وحدت کی فضاء کو قائم کرنے کے لیے ایک عملی قدم تھا۔ اس کے علاوہ جو قومی مسائل تھے ان کو حل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، ہم کوئی دعویدار نہیں ہیں کے ہم نے سارے معاملات اور مسائل حل کر دئیے ہیں، لیکن ہم نے کوشش کی ہے کہ کہیں پر بھی اس قوم نے ہمیں کسی معاملے میں پیچھے نہیں دیکھا، کوئی بھی معاملہ ہو کراچی، ڈی آئی خان، گلگت، کوئٹہ کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا دیگر قومی مسائل، ہم نے پاراچنار کے لیے امن کارواں چلایا، جس کو دیکھ کر پوری دنیا سے لوگوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔
ہم یہی کہتے ہیں کہ آئیں تقسیم کار کر لیتے ہیں، جو کام آپ کر رہے ہیں یا دوسری تنظیمیں، وہ ہم نہیں کرتے۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کے بہت سارے قومی کام ایسے ہیں جو نہیں ہو رہے، جن کی شرعی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ کسی کو تو آگے بڑھنا چاہیے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ایک مشترک فورم ہونا چاہیے۔ جس کے ذریعے مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق طے کر لیتے ہیں۔ جن کی دین و قوم کے لیے خدمات ہیں، وہ ساری شخصیات قابل احترام ہیں۔
اسلام ٹائمز:دیگر جماعتوں کے قائدین جو مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی دفتر یا پروگراموں میں آئے ہوں یا مجلس وحدت مسلمین کے اکابرین دیگر جماعتوں کے دفتر میں گئے ہوں تو اس کی تفصیل بتائیں۔؟
علامہ اصغر عسکری:اس حوالے سے الحمد اللہ جو ہمارا دو سالہ تنظیمی دور ہے اس میں بہت سارے دیگر جماعتوں کے اکابرین ہمارے پاس آ چکے ہیں اور ہمارے قائدین ان کے پاس جا چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ، ضلعی امیر میاں اسلم مرکزی دفتر تشریف لا چکے ہیں، قاضی حسین احمد، ڈاکٹر فرید پراچہ سمیت متعدد راہنما اور اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی قائدین مولانا محمد خان شیرانی، سینٹر مولانا گل نصیب، حافظ حسین احمد سمیت متعدد راہنما ہمارے مختلف پروگراموں میں تشریف لا چکے ہیں اور اس کے علاوہ منہاج القران، سنی تحریک، جمیعت علمائے پاکستان، جماعت الدعوہ، ANP اور MQM کے مرکزی دفاتر میں ہمارے اکابرین جا چکے ہیں اور ان کے قائدین ہمارے پاس آچکے ہیں۔
اس کے علاوہ 100 سے زائد مختلف جماعتوں کے اراکین اسمبلی اور سینیٹرز سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں، دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں سے بھی ہمارے اکابرین کے اچھے روابط ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اپنے ذاکرین عظام جن میں صابر بہل، ثقلین گھلو، جعفر طیار، مختار کھوکھر وغیرہ مختلف مواقع پر دفتر اور پروگراموں میں آ چکے ہیں۔ شیعہ وفاق المدارس کے سربراہ قاضی نیاز حسین، امام خمینی ٹرسٹ کے سربراہ علامہ افتخار نقوی، جامعہ العروہ وثقٰی کے پرنسپل علامہ جواد نقوی سمیت متعدد علمائے کرام ہمارے مختلف پروگراموں میں تشریف لا چکے ہیں۔
اسلام ٹائمز:گزشتہ دنوں مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس نے اپنے ایک انٹرویو میں آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، اس حوالے سے مجلس وحدت کی کیا سیاسی فعالیت ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری:جی الحمد اللہ مجلس وحدت مسلمین اگلے الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی، اس کے لیے حکمت عملی جو اپنائی جائے گی اس کے لیے میٹنگز جاری ہیں، اس کے لیے فائنل حکمت عملی 31 دسمبر کے بعد واضع ہو جائے گی کہ کیسے میدان میں اترنا ہے۔
اسلام ٹائمز:حالیہ جھنگ، دریا خان کے فرقہ وارانہ واقعات میں مجلس وحدت کا کیا کردار ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری:اس سوال کا جواب مجھ سے بہتر جھنگ اور بھکر کی عوام ہی دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان فسادات اور نازک حالات میں مجلس وحدت نے کیا کردار ادا کیا۔ الحمد اللہ مجلس وحدت نے بھکر میں مثالی کردار ادا کیا ہے، ادھر شہدا ء کے چہلم میں علامہ راجہ ناصر عباس نے شرکت کی اور ادھر جو لوگ ان واقعات میں اسیر ہوئے ان کے مقدمات بھی مجلس وحدت ہی لڑ رہی ہے۔ علامہ امین شہیدی صاحب دریان خان کے کئی دفعہ دورہ جات کر چکے ہیں۔ جھنگ میں ہمارے ضلعی سیکرٹری جنرل پر سپاہ یزید کی طرف سے ایک جھوٹا مقدمہ بنایا ہوا ہے، ہم اس قوم کی خدمت میں ہی اپنی عظمت سمجھتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:دفاع پاکستان کونسل کے نام سے ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا گیا، اس جلسہ میں کالعدم تنظیموں کی فعالیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
علامہ اصغر عسکری:ہماری قوم کا یہی المیہ ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی، بدامنی اور فرقہ واریت کا جو سلسلہ ہے اس کو روکنے کے لیے کالعدم جماعتوں سے کبھی بھی آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا گیا اور آج جو دفاع وطن کونسل بنی ہے یہ کالعدم جماعتوں سے مل کر بنی ہے جو ملک دشمن ہیں، جنہوں نے پاکستانی آرمی پر حملے کیے ہیں، انہوں نے پاکستان کا کیا دفاع کرنا ہے۔؟